ہم نے بڑی غلطی کی
جو گہرائی کی جستجو میں
ڈوبنا اور تیرنا سیکھ لیا
دریا سے بولنے کا قرینہ جان لیا
لاپتہ فرد نام درج کرواتے
اپنے لبوں پہ نیا تالا لگواتا ہے
بلیک گاؤن پہنے
سٹیج پہ پرفارم کرتا
وہ سوچ نہیں سکتا
وگرنہ وہ دیہاڑی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے
سچ بولنے والے گم شدہ افراد
برمودہ تکون میں بھٹکتے ہی
برائے نام جمہوریت کی سیل لگی رہتی ہے
بھاری بھرکم بوٹوں والے
باغیوں کو اٹھا کر
سیدھے سبھاؤ رہنے کے گر سکھاتے
“شش شش ” چپ رہنے کو کہتے ہیں۔
مگر غیرت مند خون ابلتا ہے
جلدی جلدی جوش کھاتا ہے
بوٹوں کی نوکوں سے
چہروں کو بچاتے
پیٹ پہ لاتوں اور مکوں کی مار سہتے
اکثر سوچتے ہیں۔
گمشدہ لوگ کیسے ہوتے ہیں۔۔۔۔؟
سچ بولنے کی سزا
بچہ جنتی عورت کو بھی ملتی ہے
راکھ پھرولتی ماں
اپنے خواب کی تعبیر ڈھونڈتی رہتی ہے
ہم بد بخت لوگ
مذہب کی تکڑی میں جھولتے
جنسیات کی کتابیں
پرانی ردی میں ڈھونڈتے
عبائے اور ٹوپیاں پہنے
چوری چوری جنسی سبق پڑھاتے ہیں
مگر ذہنوں کی گرد
جھاڑے نہیں جھڑتی۔
اور
گم ہو جانے والوں کی تعداد بڑھنے لگتی ہے