ابھی کتب خانے میں آیا ہوں۔ بارش تھم نہیں رہی ،جو دو گھڑی رکی تو پھر ٹپکنے لگی .. نیند آئی ہوئی ہے .. ہاآ! ایک لمبی نیند کے لیے کتنی بھاگ دوڑ کرنا پڑتی ہے زندگی بھر اچھل کود کرتا ہے انسان! ڈنڈر پیلتا ہے، پاپڑ بیلتا ہے … پھر کہیں جا کر ایک گہری نیند میسر آتی ہے ۔ اُس وقت تک، جب تک وہ مدھر سروں پر لے نہ بنالے گی، جب وہ مزامیر اور ساز چھیڑے گی تو میری ظلمتوں کے ساٹھ ہزار لبادوں میں مدفون روح آنکھیں کھولے گی، کسمسائے گی، پھر جماہی لے گی اور یہ دونوں پروں کو کھینچ کر اپنی اساس کو جگاتی ہوئی، انگڑائی لے گی۔ اور پھر میں بھی حشر کدے کی طرف چل پڑا تھا۔ چلنا کیا تھا بہہ رہا تھا اِس خوش آمدیدی میں، کہ آج ہماری میزبانی تھی۔ آج تاریخ کے سب باب کھلیں گے اور ہم اپنے حواس سے وریٰ حقیقتوں کو نوش کریں گے۔ تو بس، سفر شروع ہوا تھا میں چل رہا تھا!
لیکن میں تو روح ہوں، لسانیاتی تذکیر و تانیث سے دو حرف آگے کی کوئی چیز، تو میں چلنے لگی … ایسے برہنہ، ایسی کامل اور ایسی فطری چال جس کی زمین والوں کو ہوا نہ ہوئی تھی۔ اور میں کیوں نہ چلتی ، کہ آج انہوں نے سب روح پوشوں کو نویدسنانی ہے اور سب زمین میں بسنے والیاں آج مسافت مکمل کر چکیں گی۔
زمانے کے دوسرے کنارے تک بہے جا رہے تھے ۔ سب قافلے والیاں، لیکن اِس سب سفر میں وقت کا ٹھہراؤ، ایسے جیسے حال قائم ہو .. ایک مصّفا دریا ہے کہ ساکت ہے اور کشتی بان چپو چلاتے ہیں ، سفینوں والے بادبان باندھتے ہیں ، لیکن وہ ہوا اور پانی کہ جن کے سہارے سفینوں نے بہنا تھا کشتیوں نے چلنا تھا وہ بھی دریا کے ساتھ ابد میں اترے ہوئے تھے …
میں ایسی آزاد، ایسی بے نیاز ایسی مکمل کسی زمینی سفر میں نہ تھی کسی مادی قیام ، کسی بشری طعام اور پیغمبری الہام میں ایسا ذائقہ کہاں تھا۔ اور میں مکمل کیوں نہ ہوتی کہ احرار کے پردوں کو اسرار و افکار نے اتار، تار تار کیا اور مجھ پر، جو کبھی گنوارپن تھا، وہ جبھی ختم ہوا کہ میں اپنے گنوارپن سے آگاہ ہوئی تھی ..سو چلتی گئی تھی۔
میرے بدن کے سارے داغ، وہ سب چاک اور زندگی کی سیاہیاں اب روشنیوں میں گم تھیں کہ آسمان نیلے تھے اور روحیں روشن! ایسے واقعے میں زمینی سفر کی تھکاوٹیں تسنیم کے پانیوں میں اتر گئی تھیں اب کوثر کے جام ہمیں خمار دے رہے تھے .. کہنے والے کہنے لگے کہ یہاں سے ہم اعراف جائیں گی ، زمینی روحوں کے معاملات طے ہوں گے اور انہیں دوسری تیسری اور باقی دنیاؤں میں تسلسل کی خاطر اتارا جائے گا ۔
ہم نے سنا اور دیکھا بھی ! وہ سبھی کچھ جو ہم نے نہ سنا نہ دیکھا تھا۔ شکر ہوا، کوثر کے جام نے کوثریوں کے شعور صاف کر دیے تھے اور ان کی نگاہوں سے وقت کی تینوں شکلیں اتر گئیں اور اُن کی نگاہوں کی پتلیاں پھیل گئیں اور ایسی پھیلیں کہ افق نمایاں ہو گئے اور میزان پر تلنے والے سب اعمال کا وزن دیکھنے لگے۔
میں ایسے دیکھ رہی تھی کہ جیسے ، ایسا ہی کوئی واقعہ کبھی سنا بھی گیا ہو۔ ان نیلی، گلابی سفید، سیاہ، مزید سیاہ، سرمئی اور نورانی روحوں میں ٹولیاں ہی ٹولیاں ہیں ، گروہ ہیں منتظم ہیں سب مشغول ہیں … افق دیکھ لیے ، معاملات ہو رہے تھے لیکن…. خدا کہاں ہے ؟ میں کس سے سوال کرتی، یہ سب مجھ جیسی ہی تھیں لیکن اپنے اپنے فعل میں کامل اور اساس میں مکمل.. یہاں وہاں روحیں جھرمٹ بنائے روشنیاں بکھیر رہی تھیں …
اور، جو تم نے سدرہ کے قریب سے دیکھا ہو، تو یاد ہے ؟ سب روحیں اپنے علم میں کیسی مکمل تھیں، ہائے کہ ایک دوسرے کے واقعات تک نہ پہنچ پاتیں تھیں ، کیا سمجھتیں، کہ یہ ستر ہزار رنگوں کی مختلف القلوب روحیں تھیں اور ان میں وہ بھی جو روح پوش تھیں اور وہ بھی جو نہ روحیں تھیں نہ ہی روح پوش تھیں ..سب مصفوف تھیں۔
حساب کا سب عالم تھا ، ایک خیال گہری گھٹاؤں سا آیا اور دلوں پر ٹھہر گیا تھا۔ سبھی نے سر جھکائے اور پروں سے خود کو لپیٹ لیا۔ میں نے بھی دوسروں کو دیکھا اور ایسا ہی کیا .. کیا دیکھتی ہوں کہ ناف کی شیشہ دانی سے خوشبو اٹھتی ہے اور نگاہ ٹھہر جاتی ہے ۔ علم اترتے ہیں اور انکشاف ہوتے ہیں۔ ہر روح کو آگاہی ملتی ہے کہ اگلے پڑاؤ کے لیے اسے کہاں چلنا ہے اور کس واقعاتی ترتیب کا سبب بننا ہے .. یہاں وہاں روحیں پرواز میں مشغول ہوئیں .. کچھ بہنے لگیں ، کچھ اترنے لگیں اور اشکال کی بے شکل حالتوں میں گم ہو گئیں کہ یہ تو اعراف ہے یہاں جہتوں اورسمتوں کا تعین کہا ں ۔
اس اترنے ٹھہرنے کی پرواز میں آسمان چندھیا گیا، پھر زمردی ہوا یا سبز، پھر بنفشی ہوا اور گہرا نیلا اور ہاں زرد ہوا، اور سب سے آخری سرمئی سیاہ اور بہت سیاہ روحوں کے واقعات بھی ایسے ہی تھے، ماجرا گزر رہا تھا میں ناظر تھی۔
اب اُفق نہیں تھا ایک متوازی میدان تھا ، کیا دیکھتا ہوں کہ یہ سب ٹولیاں چلی گئیں اتر گئیں اور یہاں اعراف میں اُن کے پنکھ بکھرے ہیں ، وہ دانے دنکے کی سبیلیں ، مقدار اور نصاب اور اپنی اپنی کتاب سب قافلوں میں ساتھ لے گئی تھیں .. .
لیکن مجھے کوئی ایسا وجدان نہ ملا، کوئی خیال ، الہام یا وسوسہ کچھ بھی نہیں ! جو مجھے نئے زمینی آسمانی درمیانی یا کسی جنت اور دوزخ کی طرف گامزن کرتا.. مراقب مراتب گزر گئے میں نے سر اٹھایا ، پر سمیٹے مگر یہ کیا ؟
میدان کیسا نجس تھا۔ کیا یہی وہ اعراف تھا ؟ جہاں اس وقت روحیں تھیں ؟ اور جہاں کوثر کے چشمے تھے اور یہاں تسنیم بہا کرتی تھی ؟ ہر رنگ کی نجاست تھی ۔ ارواح اپنے متروک اثاثے اور اپنی بول براز یہاں چھوڑ گئی تھیں.. میرے پر سمٹ نہیں رہے تھے ان پر روشنیوں کی بیٹیں پڑی تھیں اور سیاہ اَرغوانی، زعفرانی ، سنہری ، مرجانی ،اَدرکی اور کافوری دھبے لگے تھے … پروں کو جھاڑتی ہوں ،پھڑپھڑاتی ہوں لیکن یہ ملکوتی نجاست اترتی نہیں اور تسنیم بھی خشک ہو چکی تھی کہ ارواح نے مٹکے بھرے تھے ، نہائی تھیں اور قطرہ قلزم سب پی چکی تھیں۔
میں چلتی ہوں بہتی ہوں اور دیکھتی ہوں کچھ سوجھتا نہیں .. وقت بدلے اور ٹھہرتے ہیں البتہ گھڑیوں کا پیمانہ مضطرب نہیں ہوتا .. سات ہوائیں چلتی ہیں اور میدان اگلے اعراف کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ گویا میدان نہ ہو کوئی سرائے ہو ! ایسے کتنے اعراف گزرے تھے اور گزرنے والے ہیں اور گزر رہے ہیں میں نے ہر اعراف میں خیمے دیکھے ، اور پانی پیے، منشور دیکھے مسرور دیکھے کمزور بدن والے مجبور دیکھے .. کہ میں دیکھ ہی تو سکتی تھی کہ یہ دیکھنا چار سو دیکھنا تھا۔
انہوں نے کہا تم چلو گی ، جانا ہوگاتمہیں …تم میزان سے دوسری جانب جاؤ .. جہاں بڑے واسطے ہیں ایک باریک گزرگاہ ہے ، خاموش دل کی سواری ہے اور گہرے راز ہیں .. تو بس میں آگئی۔ اور ایسے سات معبدوں سے گزری پھر نو کعبے دیکھے اور ان پر منڈلاتے چکر کھاتے گھیرے ہوئےمجسوم فرشتے اور خواب اور تعبیریں اور خیال اور اجسام اور زندگیاں اور مقدر اور مخلوقات اور ان کے ملبوسات بھی طواف میں دیکھے ! اس سے آگے ؟ آگئے یا اوپر ؟
ہر پڑاؤ ایک ابد تھا، ہر قدم دوسرا ابد ! ایسے انگنت ابد گزرے سر سبیل کی وادیاں آئیں ، حکمت کی فصلیں ، علم کے درّے، خیال کی گزرگاہیں اور جسم ، بے جسم جبروتی تجلیاں اور برق ،ابرق و براق، الف لام میم نون اور "ق” کی سب حالتیں گزریں !
ہائے ! جسے میں اپنی روح کہتا تھا ، جو میں خود تھا ، تو اُس "خود” نے یعنی میں نے بھیگی زلفوں کو شانوں سے سمیٹا اور بیٹ لگے پروں کو پھیلایا ! آنکھوں میں کاجل ڈالا اور اپنی چھاتی کو زمین پر لگایا، پھر ٹھوڑی کو رگڑا کہ یہ "تسلیم” کی وادی تھی ، اور یہاں سے گزرنے والے کو، "وہ” کہتے ہیں کہ خدا ملتا تھا۔۔

4 Responses

  1. Humera Tehsin

    عبدلباسط ظفر۔۔۔
    ایسی مصفاِ، جاندار اور اپنی گرفت میں جکڑ لینے والی تحریر۔۔۔ الفاظ کا نہایت عمدہ اور شعوری چناؤ۔۔۔ اور یقین مانیے، جس موضوع کا آپ نے انتخاب کیا، آج سے قبل اس موضوع پر اتنی برجستہ تحریر نظر سے نہیں گزری۔۔۔ یقیناً اس کی ایک وجہ میرا محدود مطالعہ بھی ہے۔۔۔ بہرحال آپ لکھتے رییے۔۔۔۔

    سلامت باشید۔۔۔۔ !!

    جواب دیں
  2. Ali Ahmad

    زبان گنگ ہے اور لفظ معدوم، آپ کی ایک تحریر "یزداں” میری نظر سے گزری۔۔یہ تحریر اُس تحریر سے آگے کے احوال سناتی ہے۔ تحریر میں استعاراتی جمال، الفاظ کی ترکیب و ترتیب، معانی کا قلزم اور خیال کی پیچیدگی یہ وہ تمام اجزاء ہیں جو اس تحریر کو جاذبِ نظر اور لائقِ تحسین بناتے ہیں۔ سچی پوچھیے تو ایک بار پڑھنے سے توخیال کا طائر میرے ذہن کے زنداں میں نہیں آیا۔ لیکن آپ کے تخیل کے پڑاو کہاں کہاں ہیں اس کا کچھ اندازہ ہو رہا ہے۔ اور جہاں تک میں آپ کی تحریروں کو سمجھ پایا ہوں یہ خواص کے ذوقِ طبع کیلیے تو ہو سکتی ہیں عوام کی تشنگی اس سے سیراب نہیں ہو گی۔

    علی احمد

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: