Laaltain

اظہار عامہ کی بازیابی کیا ہے؟

9 جنوری، 2015
Picture of عمید ملک

عمید ملک

پبلک اسپیس کا ترجمہ اگر مقامات عامہ جیسے سیر گاہیں، کھیل کے میدان، بس اڈے، چائے خانے، ریستوران، عوامی ہوٹل اور فٹ پاتھ کے طور پر کیا جائے تو یقیناً اظہار عامہ کا مکمل مفہوم ادا کرنا اوراس مرتبہ کے خودی فیسٹیول آف آئیڈیاز کی غرض وغایت کوسمجھنا ممکن نہ ہوگا۔ اظہارعامہ کی بازیابی سے مراداس سازگارماحول کی بازیابی ہے جس میں شام کو ہمسائے کسی تھڑے پرموڑھے ڈالے خانہ ساز چائے اور چٹ پٹے پکوڑوں کے سنگ گرما گرم بحث میں مشغول ہوں جس میں ہارجیت کی فکرنہ ہو۔ اس سے مراد پنواڑی کے بینچوں پرایسا مکالمہ ہے جس میں ہرکوئی اپنی بات کہہ سکے،جگت لگاسکےاوراختلاف رائےکی صورت میں شرطیں بد کردوستی گانٹھ سکے۔اظہارعامہ کی بازیابی بلا خوف و خطر، اظہار رائےکی وہ آزادی ہے جو بس اسٹینڈ پر بیٹھے اجنبی منتظیرین کے مابین مختصرگفتگوسے لے کر کھلے بندوں احتجاج کے حق تک وسعت رکھتی ہے۔ یہ اس اعتماد کا نام ہے جس کے بعد اپنے خیالات کسی نادیدہ خوف کی وجہ سے چھپانے نہ پڑیں، یہ اس مساوات کا نام ہے جس کے تحت کسی کا حلیہ یا شباہت موضوعات بدلنے پرمجبورنہ کرے۔ یہ امتیازی سلوک سے عاری وہ ماحول بھی ہے جس میں داڑھی مونچھ کےگھٹنے بڑھنے، آنکھوں کے آریائی یا منگول بناوٹ کے ہونے، رنگ سرخ سفید یا کالے ہونے یا زبان کے پنجابی، پشتون، سندھی و بلوچی ہونے سے خوف کے دائرے نہ گھٹیں نہ بڑھیں۔ ہم کیا ہیں اس سے ہمیں خود اور نہ ہی کسی اور کو کوئی خوف ہو اور ہم عوامی مقامات پر بلا جھجھک بات چیت اور میل جول رکھ سکیں۔

khudi-festival-of-ideas-pic1

چلو چلو فیسٹول آف آئیڈیاز چلو
میرے لیے تو فیسٹیول آف آئیڈیاز کی شروعات لاہور ریلوے اسٹیشن پر بزنس ایکسپریس کی بوگی نمبر 4 میں بیٹھنے سے ہی ہوگئی تھی۔ اپنی برتھ پر بیٹھ کر ساتھی مسافروں کے خیالات سے محظوظ (اور بعض اوقات کوفت زدہ) ہوتا ہوا میں کراچی کی جانب رواں دواں تھاکہ اسی میلے میں شرکت کے لیے کراچی جانے والے بعض دوستوں سے ملاقات ہو گئی، کچھ تو اسلام آباد سے آرہے تھے اور کچھ ہمیں خانیوال میں آملے۔ میرے لیے ٹرین کا سفر ایک مکمل انسائیکلوپیڈیا ہے بشرطہ کہ آپ آنکھیں اور کان کھلے رکھیں اورگپ شپ جاری رکھیں۔ ہر سٹیشن پر نئے لوگ، نئی باتیں، نئے خیالات اورنئےمقامات۔ میری صلاح مانیے اور پورے پاکستان کا ٹرین کی اکانومی کلاس میں سفر کر لیجیے، خیالات کا اک دریا ہے جس میں غوطے کھاتے جائیں گے۔ بیس گھنٹے خیالات کی اس دھار پربہتے ہم بالآخر جامعہ کراچی جا پہنچے جہاں خودی کا فیسٹول آف آئیڈیازہمارا منتظرتھا۔
نوجوانوں میں شدت پسندی کی روک تھام اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم خودی نے اظہارعامہ کی بازیابی کے لیے اس بار کے فیسٹول آف آئیڈیاز کو ایک ایسے عوامی ڈھابے کی شکل دی جہاں اختلاف رائے اوراظہاررائے کی آزادی سب کومیسر تھی۔ فیسٹول کے دوران اس عوامی ڈھابے پرکئی فکری نشستیں منعقد ہوئیں۔

khudi-festival-of-ideas-pic2

ایک نظر انداز شدہ المیہ
فیسٹول کا آغاز شام ساڑھے چھے بجے تعارف اور ڈاکٹر نعمان الحق کے ابتدائی خطاب سے ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے خطاب میں اس بات کی جانب توجہ مبذول کروائی کہ عوامی جگہیں ہر رنگ، قومیت اور مذہب کے لئے ہوتی ہیں اور حقیقی کشادگی ہمارے دلوں میں ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس بات کی نفی کی کہ عوامی جگہیں صرف سیاسی گفتگو تک محدود ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے افتتاحی خطبہ کےبعد مشاعرے کا اہتمام ہوا۔ مشاعرے سے قبل سید محمد علی زیدی نے اپنی نظم “سب کتے کی موت مریں گے“سنائی۔ علی زیدی کوئٹہ کے ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ، ان کی نظم انسانی المیے اورلوگوں کی بے توجہی کی اس اذیت ناک فراموشی کا مظہر تھی جومعاشروں کو بے حسی کی اندھی کھائی میں دھکیل دیتی ہے۔
گزرنے والی ہے گلیوں سے بادِ برگ آثار
کراچی کے نمائندہ شاعر ثروت حسین کے ایک مصرعے “گزرنے والی ہے گلیوں سے باد برگ آثار ” کے عنوان کے تحت منعقد کیے جانے والے مشاعرے میں کراچی کے نوجوان شعراءنے شرکت کی جبکہ صدارت جدید نظم اورغزل کے لہجہ ساز شاعرافضال احمد سید نے کی۔ مشاعرے کی نقابت افتخار حیدر نے کی جنہوں نے اپنی نظم” غزہ کی پٹی بلا رہی ہے” سے مشاعرے کا آغاز کیا۔ مشاعرے میں اسدفاطمی، شبیر نازش، سید کامی شاہ، توقیر تقی،سید کاشف رضا اورکاشف حسین غائر نے بھی اپنا کلام پیش کیا۔ مشاعرے کا اختتام افضال احمد سید کے کلام پر ہوا۔ افضال احمد سید صاحب نے اپنی نظمیں ہمارا قومی درخت،تمہاری انگلیاں اور گلدستے اور دعوت نامہ سنائیں۔ سامعین اور شرکاء کی فرمائش پر آپ نے اپنی غزل “کہیں لکھا ہونہ میرے ہاتھ سے خوں اس کا” کے چند اشعار اور “ایک خشت اگر کنگرہ ایوان پہ رکھنا” بھی شائقین سخن کی نذر کی۔
کہیں لکھا ہو نہ میرے ہاتھ سے خوں اس کا
بہت دمکتا ہے رخسار لالہ گوں اس کا
اسے کہو کہ بہت نامراد شے ہے جنوں
اسے کہو کہ مجھے بہت جنوں ہے اس کا

[soundcloud url=”https://api.soundcloud.com/tracks/185212768″ params=”auto_play=false&hide_related=false&show_comments=true&show_user=true&show_reposts=false&visual=true” width=”100%” height=”450″ iframe=”true” /]

 

قوالی کی آٹھ سو سالہ روایت
مشاعرے کے بعد محفل قوالی کا انقعاد کیا گیا جہاں حمزہ اکرم اور ان کی قوال پارٹی نے صوفیاء کا امن اور بھائی چارے پرمشتمل پیغام سروں کے سنگ شرکاء تک پہنچایا۔ قوال بچہ یا دلی گھرانے کی روایت کے امین حمزہ اکرم اور ہم نوا نے استاد نصیر الدین سامی اور فرید ایاز قوال سے تعلیم حاصل کی ہے۔ محفل سماع کا آغاز “من کنت مولا” سے ہوا جس کے بعد حاضرین کی فرمائش پرمختلف قوالیاں پیش کی گئیں۔

[soundcloud url=”https://api.soundcloud.com/tracks/185211902″ params=”auto_play=false&hide_related=false&show_comments=true&show_user=true&show_reposts=false&visual=true” width=”100%” height=”450″ iframe=”true” /]

 

اظہار عامہ کی حدود
دوسرے روز کے پہلے سیشن میں معروف ماہر تعمیرات عارف حسن اور آرٹسٹ دریہ قاضی نے اظہار خیال کیا۔ عارف حسن صاحب نے بتایا کہ انہوں نے چھے سال تک مختلف عوامی باغات میں لوگوں کے انٹرویو کیے اور دیکھا کہ لوگوں کا رویہ تبدیل ہورہا ہے، آج نوجوانوں اور جوڑوں کا پارکوں میں آنا بڑھ گیا ہے۔ عارف حسن نے کہا کہ ماحول بدل رہا ہے اور لوگوں سے اب نکاح نامہ نہیں مانگا جاتا۔ دریہ قاضی نے پاکستان کے گھٹن زدہ ماحول میں آرٹ کے ذریعےاظہار عامہ کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ سیشن کے اختتام پر سوال و جواب کی نشست کے دوران ایک سوال کے جواب میں شرکاء نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس سمیت ہر جگہ خوف کی فضا ختم کرنے پر زور دیا۔
مساجد ،حقوق اللہ اور حقوق العباد
مسجد دراصل ایک عوامی جگہ تھی جس کے دروازے تمام مذاہب کے لیے کھلے تھے لیکن یہ لوگوں کی اپنی نا اہلی ہے کہ انہوں نے ملا حضرات کے کفریہ فتاویٰ کو برداشت کیا ہے اور مساجد تنگ نظر لوگوں کے حوالے کر دیں۔
مساجد اورعبادت گاہوں میں بڑھتی ہوئی تنگ نظری اورمذہبی شدت پسندی کے باعث اظہار عامہ کی محدود ہوتی آزادی کے تناظر میں خالد ظہیر صاحب کے ساتھ گفتگو کا اہتمام کیا گیا۔ان کا کہنا تھا ” مساجد کیا صرف حقوق اللہ تک محدود ہیں یا یہ لوگوں کی بھلائی میں بھی استعمال ہو سکتی ہیں”۔ خالد ظہیر صاحب نے کہا کہ مسجد دراصل ایک عوامی جگہ تھی جس کے دروازے تمام مذاہب کے لیے کھلے تھے لیکن یہ لوگوں کی اپنی نا اہلی ہے کہ انہوں نے ملا حضرات کے کفریہ فتاویٰ کو برداشت کیا ہے اور مساجد تنگ نظر لوگوں کے حوالے کر دیں۔ انہوں نے عورتوں کے مساجد میں جانے پر ممعانعت کے حوالے سے اٹھائے جانے والے سوال کے جواب میں کہاکہ مسجد الحرم میں عورتوں کو نماز ادا کرنے کی اجازت ہے تو ہمارے ملک میں اس کی اجازت کیوں نہیں دی جا سکتی؟ خالد ظہیر صاحب نے مذہبی اداروں کو سرکاری ضبط میں لانے کی حمایت کی اورشدت پسندی کا متبادل دینی بیانیہ رائج کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

khudi-festival-of-ideas-pic3

اظہار عامہ کی آزادی اور ذرائع ابلاغ
خودی ڈھابے میں اگلی بیٹھک کے شرکاء میں نازش بروہی ، سینئر صحافی مظہر عبّاس اور عالیہ چغتائی شامل تھے۔اس نشست کے دوران ابلاغ عام کے مروجہ اور گزشتہ ذرائع اوران پرمیسرآزادی پربحث کی گئی۔ اس دلچسپ گفتگو کے دوران مظہرعبّاس نے میڈیا کی آزادی پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک زمانہ تھا کہ آمروں، فوجیوں اورجرنیلوں کے نام تک حذف کر دیے جاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ آج ذرائع ابلاغ حکومتی دباوسے کافی حد تک آزاد ہیں لیکن مالکان، دہشت گرد تنظیموں اورمفاداتی گروہوں کے دباو پرسنسرشپ کا عمل جاری ہے۔ مظہرعباس کے مطابق تجارتی گروہوں کےمفادات کا تحفظ کر کے ٹی وی چینلز اپنی سرمایہ کاری کا تحفظ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کے خلاف ماضی میں ہم نے لکھا تھا انہی کے ہاں آج ہم نوکریاں کرتے ہیں۔اس نشست کے دوران مدیران کے کم زور ہونے، ذرائع ابلاغ کی تقسیم اظہار رائے کی آزادی پر مذہبی پابندیوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ میڈیا دراصل ریاست کا ستون نہیں بلکہ ریاست کے ستونوں پر کڑی نظر رکھنے والا ادارہ ہے۔
طلبہ سیاست کا احیاء
جامی چانڈیو نے کہا کہ 1988کے بعد سیاسی جماعتوں کو طلباء کی ضرورت نہیں رہی،نوے کی دہائی کے دوران مزاحمتی اور نظریاتی سیاست کے زوال کے بعد سیاسی جماعتوں نے ضیاء دور کی مزاحمتی سیاست کی بجائےانتخابی سیاست کی جانب توجہ دینا شروع کر دی۔
ستر کی دہائی تک فعال طلبہ تنظیموں کی سیاست اور موجودہ سیاسی ماحول میں طلبہ سیاست کی ضرورت پر منعقدہ نشست میں جامی چانڈیو، ڈاکٹر مطاہر اور خرم علی نے شرکت کی۔ جامی چانڈیو نے کہا کہ 1988کے بعد سیاسی جماعتوں کو طلباء کی ضرورت نہیں رہی،نوے کی دہائی کے دوران مزاحمتی اور نظریاتی سیاست کے زوال کے بعد سیاسی جماعتوں نے ضیاء دور کی مزاحمتی سیاست کی بجائےانتخابی سیاست کی جانب توجہ دینا شروع کر دی۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی جہاں مزاحمت ہے وہاں طلبہ جدو جہد بھی ہے۔ ڈاکٹر مطاہر احمد نےطلبہ اور سیاست کو لازم و ملزوم قرار دیا،انہوں نے کہا کہ جہاں جہاں استحصال ہے وہاں جدوجہد ہے۔ نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن کی نمائندگی کرتے ہوئے خرم علی نے کہا کہ ریاست نے جان بوجھ کر کیمپس میں تشدد کو فروغ دیا، آج کیمپسوں میں سیاست نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں نے غنڈے رکھے ہوئے ہیں۔ شرکاء نے اتفاق کیا کہ جس متشدد ماحول کو ریاست نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے فروغ دیا آج ریاست اسے روکنے میں ناکام ہوگئی ہے اورغیرریاستی عناصر کےسامنےبےبس کھڑی ہے۔ شرکاء نے طلباء تنظیموں کے احیاءسے اتفاق کیا اور کہا کہ معیاری تعلیم طلبہ تنظیموں کی بدولت ہی ممکن ہے۔ شرکاء نے طلبہ سیاست میں تشدد کا جواب تشدد سے دینے کی بجائے پرامن طلبہ سیاست کی ضرورت پر زور دیا۔ نشست کے بعد خرم علی نے لالٹین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت پر بائیں بازو کی جدو جہد نے ریاستی اشرافیہ کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا جس کی بدولت ان پر مخصوص جماعتوں کی چھاپ لگ گئی،ان کا کہنا تھا کہ بائیں بازو کی تحاریک آج بھی اس داغ کو دھونے میں مصروف ہیں۔

khudi-festival-of-ideas-pic4

عورت کہاں ہے؟
اظہار عامہ کے ذرائع پر پابندیوں کا سب سے زیادہ اثر عورت پر ہوا ہے اور عوامی مقامات پرعورت کی نمائندگی بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ خودی ڈھابے کی اگلی نشست کے دوران نازش بروہی، نغمہ اقتداراورمریم بی بی نے حقوق نسواں کی جدوجہد کے دوران اپنے تجربات سےشرکاء کو آگاہ کیا۔ نازش بروہی کا کہنا تھا کہ ہر زمانے میں ہر جگہ تبدیلی کا آنا لازم ہےاور عورتوں نے ہمارے پسماندہ معاشرے میں بھی اپنے لیے آزادی کی راہ تلاش کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں دراصل جدت کو روکنا نہیں بلکہ اسکی رہ متعین کرنی ہے۔ مریم بی بی نے طالبان سے متاثرہ علاقوں میں عورتوں کی جدوجہد سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ گھر سے لے کر طالبان تک ہمیں طالبان سے لڑنے کے لیے اپنے دلائل کو مضبوط کرنا ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ کیسے طالبان سے انہوں نے ان کی ہی شرائط پر بچیوں کے سولہ سکول بنوائے۔ نغمہ نے کہا کہ آج آزادی تو بڑھ گئی ہے مگر آزادی فکر کم ہوگی ہے یہی وجہ ہے کہ گھر سے نکلنے والی لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ ان کے خلاف تشدد بھی بڑھ گیا ہے۔ عورت فاونڈیشن کی نمائندگی کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہمیں تنگ نظر معاشرے میں ہم خیال مردوں کی مدد سے کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں جتنے قوانین عورتوں کی بہبود کے لیے آئے ہے اتنے پچاس سال میں نہ آئے تھے۔

khudi-festival-of-ideas-pic5

کراچی؛ رام سے آرام باغ تک
صرف لائل پور ہی فیصل آباد میں تبدیل نہیں بلکہ اس ملک کی ہرگلی اور چوک سے اس کی اصل شناخت چھین لی گئی ہے۔
اپنی شناخت کو مسخ کرنے کےمسلسل عمل پر بات کرتے ہوئے معروف تاریخ دان اختر بلوچ نے کراچی کی ان کہی کہانی بیان کی۔ان کا کہنا تھا کہ صرف لائل پور ہی فیصل آباد میں تبدیل نہیں ہوا بلکہ اس ملک کی ہر گلی اور چوک سے اس کی اصل شناخت چھین لی گئی ہے۔ اختر بلوچ نے موتی لال نہرو سڑک کے جگر مراد آبادی روڈ اور رام باغ کے آرام باغ میں تبدیل کیے جانے تک پہچان اور شناخت سے بے وفائی کی دلخراش داستان بیان کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے “فاتحین ” ہمارے معاشرے کی ہمہ گیریت کے خاتمے اورایک تنگ نظر اسلامی معاشرے کی تشکیل میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

khudi-festival-of-ideas-pic6

استحصال کرنے والوں کی کوئی شناخت نہیں
میلوں میں راتیں نہیں سوتیں ،میں ان تین دنوں میں خودی میلے کے شرکاء سے مسلسل رابطوں میں رہا، ہر ایک سے تعارف، ہر ایک سے خوش گپیاں۔ یہ حساس اور سوچنے والے ذہن ہیں، اپنے اپنے علاقوں کے نمائندے، اپنے اپنے المیے کے ساتھ امیدوں کے چراغ جلائے ہوئےتھے۔ کسی دانا نے کہا تھا کہ اس دنیا میں خوشی کے لیے بہت بے حس ہونا پڑتا ہے، شاید ان کی حساسیت ہی ان کی کمزوری تھی۔ ان میں کہیں ہزارہ برادری کی نمائندہ لڑکیاں تھیں تو کہیں بلوچستان و سندھ کے طلبہ، کوئی گلگت بلتستان کےغم اور شکوے سناتا تھا تو کوئی فاٹا کی محرومیوں کی دہائی دے رہا تھا۔ کشمیر کے باسیوں کی داستان بھی سنائی دی جو آج بھی اپنے ہی وطن کی جنت کو ترستے ہیں۔ ایک پنجابی ہونے کی حیثیت سےجسے دوسرے صوبوں کے لوگ استحصال کنندہ اشرافیہ کا نمائندہ سمجھتے ہیں، میرے پاس ان کے سوالات کا جواب نہیں تھا۔ ہاں مگر میں انہیں بتاتا تھا کہ جس پنجاب میں رہتا ہوں، وہاں میں کتنے ہی تھر دیکھتا ہوں، کتنی ہی ملالائیں، کتنے ہی اقبال مسیح اور کتنے ہی گوجرہ۔ میرا ماننا ہے کہ اشرفیہ کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے نہ قومیت۔ان کے مظالم سے پنجاب کے لوگ بھی اتنے ہی متاثر ہے جتنے کہ دوسرے صوبوں کے لوگ۔ مگر ریاست سے ناراضی کااظہار ہر خطے نے کیا، وہ ریاست جو لوگوں نے باہمی ربط کے لیے بنائی، آج وہ ہی انہیں نگل رہی ہے۔
زبانوں کا مستقبل
اس میلے کی آخری بیٹھک زبانوں کے مستقبل سے متعلق تھی،اس نشست میں آصف فرخی، وسعت اللہ خان، محمد حنیف اورژولیاں شریک ہوئے۔ محمد حنیف نے کہا کہ طاقت اور ستم گری کی زبان اگر اردو ہے تو لازماً رابطے کی زبان اردو ہی ہوگی۔ ژولیاں نے کہا کہ کہ آج پاکستان میں دس بارہ زبانیں معدوم ہونے کا اندیشہ ہے۔ ژولیاں کے خیال میں زبان تب ختم ہوتی ہےجب ماں باپ اپنے بچوں سے اس میں بات کرنا چھوڑدیتے ہیں۔
شرکاء نے کہا کہ لوگ مادری زبان کےعلاوہ کوئی زبان تب ہی سیکھتے ہیں جب معاش اس سے جڑی ہو۔ وسعت اللہ خان کے مطابق مادری زبان کی مضبوط بنیاد دیگر زبانوں سے واقفیت میں معاون ہوتی ہے۔ شرکاء نے پاکستان میں ہندوستان کی طرز پر لینگوئج بل لانے اورتمام زبانوں کو قومی زبانیں قراردینے کا مطالبہ بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ زبان کے متعلق اگر ہمارا رویہ یوں ہی رہا تو خدشہ ہے کہ اگلی نسلیں شاید گونگی پیدا ہوں۔

khudi-festival-of-ideas-pic7

خودی کی بیٹھک اگرچہ اختتام کو پہنچ چکی ہے لیکن پاکستان ایسی بیٹھک ہے جہاں ہم اور ہماری آنے والی نسلیں اپنی زندگیاں گزاریں گی، جس میں متعدد اقوام، مذاہب، فرقوں اور قومیتوں کے افراد بستے ہیں۔ ہماری منزل یقیناًایک ایسا پاکستان ہے جہاں بڑے بڑے مسائل برداشت، حوصلے اور باہمی افہام و تفہیم سے حل ہوں اورسبھی کو اظہارعامہ کے ذرائع تک رسائی ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *