‘بدن کی بینائی’ سلسلے کی مزید تحاریر پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
دنیا میں کم ایسے چہرے ہوتے ہیں،جنہوں نے اتنے طویل عرصے تک،اپنی دلکشی کوبرقراررکھاہو،اپنے حسن کی تپش سے چاہنے والوں کوحدت مہیاکی ہو۔خوبصورتی کواتنی سخاوت سے تقسیم کیاہو۔صوفیہ لورین ایسی ہی ایک فنکارہ ہیں،جنہوں نے شوبز کی دنیا میں طویل عرصے تک راج کیااوراپنے حسن سے ایک جہان کومسحورکیے رکھا۔گزرتے وقت میں،ان کاحسن تو شاید ڈھل گیاہے،مگرماضی کی شاندار پرچھائیاں، شائقین کوبے چین کردینے کے لیے اب بھی کافی ہیں۔
1934کو،اٹلی میں پیداہونے والی خوبصورت اداکارہ نے اطالوی سینما،امریکی فلمی صنعت اورمغرب کے فیشن کے تمام قلعے فتح کرنے کے بعد،زندگی کومکمل سکون سے گزارنے کے لیے سوئٹزرلینڈ کاانتخاب کیا۔فطری حسن سے قربت رکھنے والی اس اداکارہ نے رہائش کے لیے بھی فطری مقام کومنتخب کیا،جس طرح ماضی میں قدرت نے اس کواچانک سے،ایک مقابلہ حسن میں شرکت کرنے پر، دنیائے شوبز کے لیے حاصل کیاتھا۔رومان،بے باکی،دلکشی،فطرت کاحسین امتزاج،صوفیہ لورین کے سواکون ہوسکتاہے۔
1951کو،15 برس کی نٹ کھٹ عمرمیں فلمی کیرئیر کاآغازکیا۔فن کے ابتدائی سفر میں چھوٹے موٹے کرداربھی نبھائے،لیکن 1956کوقسمت کی دیوی اس پر مہربان ہوگئی اورمعروف فلم ساز ادارے’’پیرامائونٹParamount‘‘کے ساتھ 5مشترکہ فلموں کامعاہدہ طے کرلینے کے بعد، بین الاقوامی شہرت کاسفرکی ابتداکی، یوں پھرThe Pride and the PassionاورHouseboatسے لے کرIt Started in Naplesتک،اس نے اپنی اداکارانہ مہارت کااحساس دلایا،مگرحقیقی معنوں میں ایک فلمTwo Womenسے اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کالوہا منوایااور1962میں،بہترین اداکارہ کا آسکرایوارڈحاصل کرکے پوری دنیا کواپنی آمد کی اطلاع دی۔
اطالوی فلم سے بہترین اداکارہ تسلیم کیے جانے والی صوفیہ لورین نے اٹلی میں بھی اسی فلم کے ذریعے وہاں کے مستند فلمی ایوارڈزبھی اپنے نام کرکے تہلکہ مچادیا۔کامیابیوں کے اس سفر میں،یہ فلمی دنیا سے باہر نکل کرموسیقی اورفیشن کی دنیا میں بھی نام کمانے میں کامیاب رہی۔ موسیقی کے مستند ایوارڈگریمی سے لے کر،فیشن کے متعدد بڑے ایوارڈزسمیت،برطانیہ کامعروف ایوارڈBAFTAبھی اس کے نام رہا۔کئی ایک فلمی میلوں کے اعزازات سمیٹنے کے علاوہ 1991میں اعزازی آسکر ایوارڈ بھی حاصل کیا۔
صوفیہ لورین کے سفرمیں اس کی اداکارانہ صلاحیتوں سے انکار ممکن نہیں، مگر اس کی کامیابیوں کے چراغ میں، اس کاحسین بدن،دلکش چہرہ،بے باک ادائیں اورنشیلی آنکھیں بھی، دادوتحسین کا وہ شہد انڈیل رہی تھیں۔بلیک اینڈ وائٹ زمانے کی رنگین ادائیں ناقابل برداشت تھیں،کئی نسلیں اس کے حسن سے متاثر ہوئیں،کتنی آنکھوں کو اس نے خیرہ کیااورکتنے تھے،جن کے تصورِ محبوب پر اس کے نقوش کاغلبہ رہا۔ساتھی فنکاروں میں کتنے دلوں کواس نے تسخیر کیا،کتنوں کوکچل کرآگے بڑھ گئی اورکتنے تھے،جن کی آہوں اورسسکیوں میں اس کانام شامل تھا۔اطالوی حسن میں،اتنی تفصیل سے جن چہروں کوموضوع بنایاگیا،وہ کم کم ہیں۔اس کاشمار ان مقبول ترین 25چہروں میں بھی کیاجاتاہے،جنہوں نے امریکی شوبز میں سب سے زیادہ راج کیا۔
صوفیہ لورین کوپیدائشی فنکارہ کہاجاسکتاہے۔اس نے جب ہوش سنبھالاتواپنے اردگردکے ماحول میں ڈھلنے کی بجائے،اپناراستہ خود تراشنے کافیصلہ کیا۔خوبصورتی اوربہادری کے امتزاج نے اس کی شخصیت کو رنگین بنادیا۔کم عمری میں ہی اس نے خود کوموسیقی اوراداکاری کی طرف راغب پایا۔خواہشوں کی آہٹ پر کان دھرتے ہوئے،اپنی زندگی کے پہلے مقابلہ حسن تک آپہنچی،اس کوخبرنہ تھی،ایک زمانہ آئے گا،جب اس کے حسن کا کوئی ثانی نہ ہوگا۔دوسری جنگ عظیم کی دہشت نے اس پر بھی اثرکیا۔بمباری میں یہ اپنے خاندان سمیت محفوظ رہی،تب اس کو اندازہ ہوا،زندگی کتنی قیمتی شے ہے،اس کے بعد،زندگی کواس نے واقعی جی کردیکھا۔اس زمانے میں گزربسرکرنے کے لیے خاندان کے ہمراہ ریستوران میں بیراگیری بھی کی،لیکن اس مشقت سے اس کی صلاحیتوں اورخوبصورتی کی چمک دمک میں مزید اضافہ ہوگیا،اس میں برے حالات سے لڑنے کی ہمت آگئی۔
اپنے فنی کیرئیر میں بھی اسی بہادری سے ڈٹے رہنے کی بناپربے شمارکامیابیاں اس کے حصے میں آئیں۔اطالوی اورامریکی سینما پر راج کیا۔1950سے لے کر2014تک،100 سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔نیوڈ فوٹوشوٹس کروانے سے بھی شہرت میں اضافہ ہوا۔اس کے ساتھ ساتھ کئی معاشقے کیے،جن میں سرفہرست معاشقہ Cary Grantکے ساتھ تھا،وہ خود بھی ایک وجیہہ اورتخلیقی ذہن کاشخص تھا،جس نے صوفیہ لورین کے ابتدائی کیرئیر کو مضبوط کرنے میں اپنا کلیدی کردار اداکیا،مگرشادی کے لیے انتخاب،اطالوی فلم سازCarlo Pontiہی ٹھہرا۔
موسیقی کے شعبے میں بھی اپنے ہنرکوآزمایااورکامیاب رہی۔فٹبال کے کھیل میں خاص دلچسپی ہے،اس کے حوالے سے وہ اپنی دلچسپیوں کااظہاربھی کرتی رہتی ہے۔زندگی کے اس موڑ پر جب وہ 9دہائی میں داخل ہوچکی ہے،اس کے ذہن میں زندگی کاخلاصہ بہت واضح ہے،وہ اپنی سوانح حیات لکھتے ہوئے بھی اس کی تشریح کرچکی ہے۔2007میں شوہر کے انتقال کے بعد،اس سے ایک انٹرویومیں پوچھاگیا،پھر شادی کرنا پسند کروگی،تواس کاجواب نفی میں تھا،کیونکہ اس کاخیال ہے کہ ’’محبت ہرایک کے لیے نہیں ہوتی۔‘‘
ظاہری حسن ڈھل جاتاہے،مگرگزاری ہوئی زندگی کے حسین لمحات،کبھی فراموش نہیں ہوسکتے۔ان لمحوں میں اگرشہوت اورمحبت کی پرچھائیاں بھی شامل ہوں توپھران کی لوسے یادوں کے چراغ،نوسٹلیجیاکے ایندھن سے،بہت دیر تک روشن رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔