دنیا کے گلوبل ویلیج بننے کے نظریئے کو تقویت تب ملی جب ماہر ابلاغیات مارشل میک لوہن نے یہ نظریہ پیش کیا جس کے مطابق اب دنیا میں ہر بندے سے آپ کے روابط بن گئے ہیں خواہ وہ کسی دوسرے براعظم میں ہی کیوں نہ ہو۔ پل پل کی خبر سے آپ گو اگاہی مل رہی ہے یعنی دنیا آپ کی مٹھی میں آگئی ہے۔ اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن جسے خبروں کی ترسیل کا بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے، یہ سب ذرائع خبروں کی ترسیل کے ساتھ ساتھ تشہیر کے اہم ذرائع بھی ہیں۔ دنیا بھر کے صنعت ساز اپنی اشیاء اور خدمات کی مشہوری کے لیے ان کا استعمال کرتے ہیں۔ نت نئی مصنوعات اور خدمات کے اشتہارجب تک مختلف ٹی وی چینلز پر نہ چلائے جائیں نہ تو یہ مصنوعات اپنی پہچان بنا پاتی ہیں اور نہ ہی ان کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔

قطع نظر اس بحث کے کہ کیا انصار عباسی کی اخلاقیات کی بناء پر مذکورہ اشتہار کو اچھا برا یا فحش قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں عورت کے اشتہارات میں بطور ایک جنس استعمال کو ضرور تنقید کا نشانہ بنایا جانا چاہیئے۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں موبائل فون کا استعمال لوگوں کی ایک بڑی تعداد کرتی ہے۔ سات سال کے بچے سے لے کر بزرگوں تک ہر کوئی موبائل فون بنا جانے ہی استعمال کر رہا ہے۔ فقیر، مزدوراور دو وقت کی روٹی کا محتاج بھی کم از کم ایک موبائل فون کا مالک ہے۔ چونکہ پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے اِس لیے موبائل فون کا استعمال بھی نوجوان نسل میں زیادہ ہے۔ موبائل استعمال کرنے والوں کی اتنی بڑی تعداد کو سروسز مہیا کرنے کے لیے پاکستان میں پانچ بڑی کمپنیاں کام کر رہی ہیں(جن میں سے دو کا ادغام ہو رہا ہے)۔ ہر کمپنی گاہکوں کی تعداد بڑھانے کے لیے دوسروں سے بڑھ کر سہولیات مہیا کرتی ہے۔ کمپنیوں کی اِس حکمتِ عملی کی وجہ سے پاکستان میں موبائل فون کا استعمال سستا ہو گیا ہے۔ یہ کمپنیاں سستے کال ریٹ اور سستے ایس ایم ایس بنڈلز کے ذریعے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

موبل لنک کا متنازع اشتہار جس میں نرگس فخری کے پوز پر اعتراض کیا گیا

موبل لنک کا متنازع اشتہار جس میں نرگس فخری کے پوز پر اعتراض کیا گیا

گزشتہ دنوں ایک بڑی کمپنی موبل لنک نے انڈین اداکارہ نرگس فخری کو ایک اشتہار میں پیش کیا اشتہار ملک کے بڑے اخبارت میں اس انداز میں پیش کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہو گیا۔ مشہور صحافی انصار عباسی کو ٹویٹ کرنا پڑی کہ یہ اشتہار میڈیا کے دائرہ اخلاق سے باہر ہے۔ جس کے بعد ایک بڑے میڈیا ہاوس نے انصار عباسی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ قطع نظر اس بات کے کیا انصار عباسی کی اخلاقیات کی بناء پر مذکورہ اشتہار کو اچھا برا یا فحش قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں عورت کے اشتہارات میں بطور ایک جنس استعمال کو ضرور تنقید کا نشانہ بنایا جانا چاہیئے۔ دانشور تھیوڈور اڈورنو اس سے قبل عورتوں کی اس طرح عکاسی پر تنقید کر چکے ہیں مگر پاکستانی صحافی کو تنگ نظر قرارد یا گیا۔ اخبار میں شائع ہونے والے اشتہار نے کئی سوالات پیدا کیے کہ کیا مصنوعات ساز ادارے پیسے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں؟

ایک نیٹ ورک کو چھوڑ کر دوسرے نیٹ ورک پر جانے یا ایک ہی نیٹ ورک کو زیادہ پسند کرنے کی جہاں اور بہت سی وجوہ ہیں وہاں ٹیلی ویڑن پر چلنے والے اشتہارات بھی صارفین کے فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
موبائل کمپنیوں کا کاروبار انہی اشتہارات کی وجہ سے چلتا ہے اور میڈیا مارکیٹنگ اسی کو کہتے ہیں کہ اپنی مصنوعات کو دوسروں سے ممتاز کر لو۔ تمام موبائل نیٹ ورک کمپنیوں کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے نیٹ ورکس کے صارفین بھی ان کے نیٹ ورک پر آجائیں۔ ایک نیٹ ورک کو چھوڑ کر دوسرے نیٹ ورک پر جانے یا ایک ہی نیٹ ورک کو زیادہ پسند کرنے کی جہاں اور بہت سی وجوہ ہیں وہاں ٹیلی ویڑن پر چلنے والے اشتہارات بھی صارفین کے فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اشتہارات کی اسی اثر پذیری کے باعث مصنوعات ساز اور خدمات فراہم کرنے والے ادارے ایسے تشہیری ہتھکنڈے اختیار کرتی ہیں جن سے کمپنیوں کو فائدہ اور معاشرے کو نقصان ہوتا ہے۔ ٹیلی ویڑن پر چلنے والے اشتہارات میں اکثر نوجوانوں کو جنسی ترغیب اور صنف مخالف میں مقبولیت کے نام پر لبھایا جاتا ہے۔ایک پر خلوص دوستی یا کسی بھی غیر رومانی تعلق میں لڑکے اور لڑکیوں کو پیش کرنے کی بجائے ہر اشتہار میں لڑکے اور لڑکی کو “گرل فرینڈ” اور بوائے فرینڈ”کی شکل میں دکھایا جانا کسی قدر نامناسب ہے۔ یقیناً اس عمر کے نوجوانوں میں ایک دوسرے کے لیے رومانی کشش ایک فطری بات ہے مگر ہر تعلق کو اسی تناظر میں پیش کر کے مصنوعات کی فروخت قابل اعتراض ہے۔ نائٹ پیکجز کی تشہیر یوں کی جاتی ہے گویا یہ رات بارہ بجے کے بعد اِس پیکچ کا استعمال ہر لڑکے اور لڑکی کے لیے ضروری ہے۔ اشتہارات میں الفاظ کا چناﺅ بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔ بہت سے معیوب الفاظ بھی اج کل کے اشتہارات کی زینت بن رہے ہیں۔

اشتہارات میں وہ دکھایا جاتا ہے جیسا کمپنیاں چاہتی ہیں۔ اشتہار ان کے کاروباری ذہن کے پیداوار ہیں، سماج کی نہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو اپنا سامان کیسے بیچیں گے؟ ان کا اصل مقصد تو سامان بیچنا ہے، چاہے جیسے بکے، سرمایہ داروں نے اپنے اشتہارات کے ذریعے عورت کو جنس بازار بنادیا ہے۔ کسی بھی چیز کا اشتہار ہو، اس میں گلیمرس عورت کا ہونا ضروری ہے۔ بلیڈ ہو یا شیونگ کریم، کھانے کی اشیاء ہوں یا کار، ہر اشتہار میں گلیمرس عورت ناگزیر ہے۔ سرمایہ داروں نے اپنی مصنوعات کی خوبیوں کی بجائے عورت کے حسن اور اس کے جسم کو اپنے سامان بیچنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اشتہارات میں دکھائی گئے مرد اور خواتین ماڈلز حقیقی زندگی میں خاصے منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق امریکہ میں 13 سال کی 53 فیصد لڑکیاں اپنے جسم کی بناوٹ سے خوش نہیں ہیں۔17سال تک پہنچتے ہوئے یہ اعدادو شمار 78 فیصد ہو جاتے ہیں۔17 فیصد لڑکیاں خوبصورت نہ دکھنے پر خود کو چوٹ پہنچاتی ہیں۔ 2000-2010 کے دوران اس بناء پر ڈپریشن کا شکار ہونے والی مریض خواتین کی تعداد دگنی ہو چکی ہے

اشتہار بنتے ہی اس لیے ہیں کہ لوگوں کے اندر احساس محرومی جگایا جائے تاکہ وہ اشیاء کی خریداری کے ذریعے اپنے احساس کم تری کو دور کرنے کی جانب راغب ہوں۔
اشتہاروں کے پیغام کافی موثر ہوتے ہیں، لیکن ان کا استعمال صحیح طریقے سے نہیں کیاجاتا۔ امریکہ میں ہر سال اشتہارات میں پیسہ لگانے کی رفتار میں اضافہ ہوتا ہے گزشتہ سال صرف اشتہارات میں دوہزار کروڑ لگایا گیا۔ 19 سال سے کم عمر کی لڑکیوں میں کاسمیٹک سرجری کا رحجان 2007 سے 2014تک چھ گنا بڑھ گیا۔ اشتہارات میں دکھائے جانے والے سماجی رویے بھی خاصے قابل اعتراض ہیں ۔ اشتہارات میں عموماً خواتین کو خوبصورت ہونے کے ساتھ محض آرائشی وجود کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، انہیں بیوقوف، لالچی، چالاک، دھوکے باز، ہر وقت رونے والی اور پریشانی کی وجہ دکھایا جاتا ہے۔ وہیں پر مردوں کو عقل مند،پیسے والا اور عزت دار دکھایا جاتا ہے۔ ایسے اشتہارات سے زیادہ تر بے چینی اور پریشانی بڑھتی ہے چاہے وہ عورت کے لیے ہو یا مرد کے لیے۔ اشتہار بنتے ہی اس لیے ہیں کہ لوگوں کے اندر احساس محرومی جگایا جائے تاکہ وہ اشیاء کی خریداری کے ذریعے اپنے احساس کم تری کو دور کرنے کی جانب راغب ہوں۔ اشتہار سازی کی صنعت کو اپنے لیے ایک متوازن ضابطہ اخلاق ترتیب دینا ہو گا تاکہ اشتہارات مصنوعات کی تشہیر کریں نا کہ سماجی تعصبات کے فروغ کا باعث بنیں۔

One Response

  1. Muhammad Arshad Qureshi

    بہت عمدہ۔ واقعی بہت عجیب لگا صبح قومی اخبارات میں اس قسم کی تصویر دیکھ کر ۔ لیکن چند ہی دنوں بعد فیصل قریشی کی اسی جگہ ایک تصویر دیکھ کر کچھ تسلی ہوئی کہ کسی نے تو اس کے خلاف ایک خاموش لیکن دیکھائی دینے والا قدم اٹھایا ۔

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: