کائنات، انسان اور خدا کی پہچان اور حقیقت کی تلاش میں سرگردانی ہمیشہ سے فلاسفہ اور مذہب کا اہم ترین موضوع رہا ہے۔ فلسفہ کی ترقی اور عقلیت پسندی کے رجحان نے جدید سائنس کی شکل اختیار کی اور مذہب میں اس سے متعلق مختلف نظریات تشکیل پائے۔ اسلام کی تاریخ کے سنہری دور یعنی ساتویں تا تیرہویں صدی عیسوی سے لے کر آج مسلم معاشرے کی زوال پذیری تک سائنس اور اسلام کے درمیان تطبیق یا تفریق کے مختلف پہلووں پر بے بہا مطالعہ موجود ہے۔ یہ مطالعہ انتہائی سطحی رجحانات سے لے کر سنجیدہ بحث تک پھیلا ہوا ہے جن کی مفصل معلومات کے لئے مغرب و مشرق کے مفکرین نے بے بہا کتب و رسائل و مضامین دستیاب کئے ہیں۔ ہمارے موجودہ مضمون کا مقصد ان تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے نظریات کا مختصر تعارف پیش کرنا اور اس اہم مسئلہ پر اپنا موقف قائم کرنا ہے کہ سائنس اور اسلام میں کس قدر تطبیق یا تفریق پائی جاتی ہے؟
اسلامی فلسفے کی تاریخ پر مشہور کتب میں ماجد فخری کی تصنیف کے مطابق "مصنفین اتفاق رائے سے جس شخص کو پہلا عرب فلسفی قرار دیتے ہیں وہ ابو یوسف یعقوب بن اسحاق الکندی ہیں” جن سے نویں صدی عیسوی میں فلسفے کی منظم تحریروں کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ دور مشہور مسلم حکمرانوں ہارون الرشید، المامون اور المتعصم کا ہے جن کو فلسفے اور تجزیاتی سائنس میں انتہائی دلچسپی تھی۔ یاد رہے اسلام میں فلسفے یا سائنسی فکر کی بنیاد اس وقت پڑی جب یونانی مکاتیب فکر بالخصوص فیثا غورث، سقراط، افلاطون اور ارسطو اور سریانی زبانوں سمیت ہندی رسائل و کتب کا عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ اسی دور میں معتزلہ کی عقلیت پسندی کا باقاعدہ آغاز بھی ملتا ہے۔ روایتی ذرائع کے مطابق معتزلہ مکتب فکر کا بانی واصل بن عطا (وفات ۷۴۸ء) تھا جو کہ مشہور صوفی حسن بصری کا شاگرد تھا۔ معتزلہ کا رجحان یونانی فلسفے کو اسلامی عقائد میں شامل کرنے کی طرف مائل رہا۔ الکندی کے بعد الرازی کا نام تاریخ میں اسلام کے عظیم مفکر اور طبیب کے طور پر جانا جاتا ہے۔ الکندی اور الرازی کے فلسفوں میں مضمر نوافلاطونی رجحانات الفارابی اور ابن سینا کی تحریروں میں پوری آب وتاب کے ساتھ سامنے آگئے۔ ان مفکرین نے عقلیت پسندی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ مذہبی عقائد اور فلسفیانہ نظریات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
اہل یونان کے مکاتیب فکر نے اسلام میں جس عقلیت پسندی پر زور دیا اس کے خلاف دسویں صدی میں ایک نئی تحریک نے جنم لیا جس کے بانی ابوالحسن اشعری (وفات ۹۳۵ء) تھے۔ اشعری کی فکر رجعت پسندانہ افکار پر مشتمل دکھائی پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر اشعریہ کے مطابق دین کی حمایت میں علم الکلام سے مدد لینا اصل اور مستند راستے سے انحراف کو جنم دیتا ہے اور یہ بدعت ہے۔ یوں معتزلہ کی فلسفیانہ فکر اور اسلام میں نوافلاطونیت کے زوال کا دور شروع ہوتا ہے جس کی تابوت میں حتمی کیل بارہویں صدی کے مشہور امام ابوحامد محمد بن محمد الغزالی (وفات ۱۱۱۱ء) نے لگائی۔ ان کے مطابق علم الکلام یا فلسفہ مسلمہ یقین کی طرف رہنمائی نہیں کرتا کیونکہ فلسفہ چند قضیوں سے ابتدا کرتا ہے جن کی تصدیق اپنے طور پر نہیں ہوتی۔ غزالی نے ارسطوئی فلسفہ اور نوافلاطونی نظریات کا مطالعہ کیا اور اس کے بعد اپنے مطالعہ کی بنیاد پر ایک کتاب “تہافت الفلاسفہ” تحریر کی جس میں انہوں نے فلسفیوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔
یہاں ایک اہم اور عام فہم غلطی کا ازالہ کردینا نامناسب نہ ہوگا۔ آج کے دور میں اکثر آزاد خیال اور عقلیت پسند حلقوں کی جانب سے یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ شاید غزالی نے اسلام میں فلسفے یا سائنس کی تحقیق کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔ اور اسی دلیل کی بنا پر غزالی کو علم دشمن بھی تصور کیا جاتا ہے۔ حالانکہ مستند تاریخی دستاویزات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ غزالی نے واضح طور پر فلسفے کو دو بنیادی حصوں میں تقسیم کیا جس میں سے ایک حصہ کائنات کے مادی پہلو اور دوسرا خالص مابعدالطبیعاتی مسائل سے تعلق رکھتا ہے۔ غزالی کی تنقید محض اس مابعدالطبیعاتی پہلو سے ہے وگرنہ وہ مادی کائنات کے لئے سائنس ہی کو مستند قرار دیتے ہیں۔ مسلم فلاسفہ کے وہ نظریات جن کا تعلق خالص الہیات کے مسائل سے تھا ان پر غزالی نے سخت تنقید کی ہے۔ اسلام سے سائنس کی دوری کی وجوہات میں جہاں ملائیت اور اشعری مکتب فکر نے کام کیا وہیں اس کی بڑی وجہ سیاسی انتشار اور حکمرانوں کی اقتدار کی ہوس ہے جس کے لئے انہوں نے من پسند نظریات اور ملائیت کو فروغ دیا۔
عقلیت پسندی کے برعکس ایک اور رجحان جو اسلام میں کافی مقبول ہوا وہ تصوف یا روحانیت کا موضوع ہے۔ تصوف بنیادی طور پر خدا کی پہچان اور حقیقت اولی کے ساتھ فنا و بقا کی منازل طے کرنے کا نام ہے۔ اسلام میں تصوف کے دو پہلو پروان پائے جنہیں ہم نظری تصوف اور عملی تصوف کا نام دے سکتے ہیں۔ عملی تصوف کا تعلق ذکر، مراقبہ اور مجاہدہ کے ساتھ ہے جبکہ نظری تصوف میں خدا اور بندہ کے درمیان تعلق کی نوعیت اور اشیاء کی حقیقت کا مطالعہ شامل ہے۔ یوں نظری تصوف اپنے موضوع کے لحاظ سے فلسفہ کے قریب تر ہے۔ اسلام میں اولین صوفی خواجہ حسن بصری (۷۲۸ء) کو سمجھا جاتا ہے جنہوں نے باقاعدہ خانقاہ کا تصور پیش کیا جو ایک ایسی جگہ ہے جہاں ترک دنیا اور زہد و فقر جیسے تصورات کو علمی جامہ پہنایا جاتا ہے۔آپ ہی کی ایک تلامذہ مشہور خاتون صوفی رابعہ بصری (وفات ۸۰۱ء) نے سب سے پہلے عشق الہی کا تصور پیش کیا اور اسی طرح معتزلہ کی تحریک کے بانی واصل بن عطا بھی آپ کے شاگرد تھے۔تصوف کے دیگر مشہور نام جنید بغدادی، معروف کرخی اور بایزید بسطامی ہیں جنہوں نے خدا کے ساتھ وحدت کی تلقین کی۔ انہی حضرات میں سعید بن ابی الخیر (وفات ۱۰۴۹ء) بھی شامل ہیں جو ابن سینا کے دوست تھے اور مشہور صوفی علی بن عثمان الہجویری کے استاد تھے۔ تصوف کے اسلام پر اثرات اور نوافلاطونی فکر کے زیر اثر اسلامی فلسفے کے دو اہم ترین مکاتب فکر یعنی فلسفہ اشراق اور فلسفہ وحدت الوجود سامنے آئے۔
فلسفہ اشراق کے بانی شہاب الدین سہروردی (وفات ۱۱۹۱ء) ہیں۔ تاریخی اسناد سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فلسفہ کے ماخذ یونانی فلسفی فلاطینوس کے نظریات ہیں جو ۲۰۴ بعد مسیح مصر میں پیدا ہوا اور افلاطون کی کتب کا شارح سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ وحدت الوجود کے فلسفے کو باقاعدہ طور پر اندلس کے مشہور صوفی شیخ ابن العربی نے پیش کیا۔ ان کی تصانیف کی تعداد ۸۴۶ کے قریب تھی جن میں سے ۵۵۰ باقی رہ گئی ہیں۔ شیخ ابن العربی کو نظری تصوف میں سب سے معتبر مانا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا میں تصوف اور بالخصوص ابن العربی پر بہت تیزی سے کام ہورہا ہے جس میں مشہور مسلم مفکر سید حسین نصر، ولیم چٹک، مارٹن لنگز اور فرتجوف شوون کے نام قابل ذکر ہیں۔ پاکستان میں اقبال اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر محمد سہیل عمر کی تالیفات اور سہیل اکیڈمی کی شائع کردہ تصنیفات کی تعداد اس بات کا ثبوت ہیں کہ نظری تصوف نے اسلام میں فلسفیانہ فکر پر کس قدر اثر کیا ہے۔
بارہویں صدی کے آغاز ہی میں مسلم سپین میں سائنس نے بھی ترقی کی۔ قرطبہ کی لائبریری میں ہزاروں کتابوں کے تراجم موجود تھے۔ عرب اندلسی فلسفیوں میں بلاشبہ پہلا بڑا نام ابوبکر محمد بن الصائغ المعروف ابن باجا (وفات ۱۱۳۸ء) کا تھا۔ ابن باجا نے بھی ابن سینا اور الفارابی کی مانند ارسطو کے نظریات کی پیروی کی اور مسلم سپین میں نوافلاطونیت کی بنیاد رکھی۔ اس کے علاوہ ایک مشہور نام ابوالولید محمد بن احمد بن رشد المعروف ابن رشد کا ہے جو ارسطو کی کتب کا بہترین شارح سمجھا جاتا ہے۔ اس کا سب سے اہم کارنامہ غزالی کے رد میں لکھی گئی کتاب “تہافت التہافت” ہے جس میں اس نے غزالی کے اعتراضات پر سخت تنقید کی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ابن سینا اور الفارابی کے نظریات پر بھی تنقید کی اور یہ دکھایا کہ ان کے نظریات ارسطو کی صحیح ترجمانی نہیں کرتے۔ یہاں یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ ابن رشد کی ارسطو پر لکھی شرحیں مغربی یورپ میں ارسطو کا ورثہ سمجھی جاتی ہیں۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ مغرب میں سائنس اور فلسفے کا دخل ابن رشد کے ذریعے ہوا تھا۔
تیرہویں صدی عیسوی کے بعد کے واقعات اور تاتاریوں کے حملے سمیت دیگر سیاسی صورتحال کے تحت مسلم فلسفہ کا زوال شروع ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ عالم اسلام میں علم الکلام کی نئی تشکیل سامنے آئی جس میں روایتیت کی تحریک کے ایک داعی شام کے فقیہ احمد ابن تیمیہ (وفات ۱۳۲۷ء) نے رد عقل اور قدامت پسندی کی ترویج کی۔ انہوں نے منطق کے رد میں ایک کتاب بھی لکھی۔ اس سے اسلام میں عقلیت پسندی اور فلسفیانہ فکر کو کافی نقصان پہنچا۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی تحریک وہابیت کی شکل میں نمودار ہوئی جس کے بانی محمد بن عبد الوہاب (وفات ۱۷۹۲ء) تھے۔ انہوں نے حجاز اور نجد میں مقیم سعودی خاندان کو اپنا قائل کر لیا جس کے نتیجے میں اس تحریک کو پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان روایت پسندوں کے ساتھ ساتھ اگرچہ ایک اقلیت آزاد خیال فقہاء کی بھی تھی جن میں امام فخرالدین رازی جنہوں نے ابن سینا کی دو کتابوں کی شرح لکھی اور اسی طرح ابن خلدون (وفات ۱۴۰۶ء) کا نام شامل ہے جو عمرانیات کے بانی متصور ہوتے ہیں۔
تیرہویں صدی عیسوی کے بعد کے دور میں مسلم ریاست کی ٹوٹ پھوٹ اور مغربی طاقتوں کی سامراجیت نے مسلم فکر میں تنزلی کو جنم دیا۔ آج تقریباََ آٹھ سو سال گزرنے کو ہوئے لیکن مسلم فکر کی نشاۃ ثانیہ کے آثار نظر نہیں آتے۔ ہر دور میں کوئی اکا دکا فلسفی تو نظر آتے ہیں لیکن مجموعی طور پر مسلمان علم کے میدان میں شکست خوردہ ہیں۔ مغرب میں سائنس کی ترقی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ مسلمانوں کو مغرب زدگی کے خوف نے انہیں سائنس سے مزید دور کر رکھا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں سرسید احمد خان نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد دوبارہ مسلم فکر کو معتزلہ مکتب فکر کے خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی جن کے کام کو سید امیر علی (۱۹۲۸ء) اور بعد میں علامہ محمد اقبال (وفات ۱۹۳۸ء) نے ان کی سوچ کو آگے بڑھایا۔ لیکن ان افراد نے بھی خالص فلسفیانہ سوچ کی بجائے متکلمین کا راستہ اپنایا۔ خصوصی طور پر اقبال نے اپنے مشہور خطبات “تشکیل الہیات تجدید” میں جدید سائنس کے تصورات کو اسلامی رنگ دینے کی کوشش کی ہے اور بعد میں آنے والے مذہبی رہنما بھی اسی اسلوب پر کام کرتے آئے ہیں۔ لیکن تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جب تک مذہبی فکر اور الہیاتی مسائل کو سائنس اور فلسفہ کی زد سے دور نہیں رکھا گیا تب تک مسلم دنیا میں فکر وعقل کا انقلاب برپا نہیں ہوسکتا۔ مذہبی مباحث اور عقائد کو سائنسی نظریات سے خلط ملط کرنا صرف مذھبی فکر کو نقصان دے گا۔
غزالی نے فلسفے کی تقسیم دو حصوں میں کی اور فلسفے کا وہ حصہ جو کائنات اور مادی مسائل سے بحث کرتا ہے اسے مستند قرار دیا۔ یوں کہیے کہ سائنسی نظریات سے بحث کرنے کی بجائے خالص مذھبی مباحث سامنے لائے جائیں۔ اسی طرح سائنس کو بھی یہ جائز نہیں کہ مذھبی عقائد سے الجھے یا اس پر اپنا نقطہ نظر پیش کرے۔ مغرب میں سائنس اور مذھب کی کشکمکش ایک خالص مغربی مسئلہ ہے جس کا اسلامی دنیا سے کوئی واسطہ نہیں۔ یاد رہے جب بھی ہم کسی خاص مکتبہ فکر کو سمجھنا چاہیں تو اسے انہی اصولوں کی روشنی میں پرکھا جانا چاہیے جو اس خاص مکتب فکر سے منسوب ہیں۔ اہل مشرق بالعموم اور اہل اسلام بالخصوص ایک الگ شناخت، نظریہ اور انداز فکر رکھتے ہیں جن کا مغربی طرز فکر سے واسطہ نہیں ہے۔ لہذا وہ مباحث جو مغرب میں کلیسا اور سائنس کے درمیان پیدا ہوئے انہیں اسلام میں گنجائش دینا نامناسب ہے۔ شاید یہی ایک طریقہ ہے جس کو اپنا کر مسلم دنیا میں فکر کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہو سکتا ہے!
Leave a Reply