وہ تمام افراد اور جماعتیں جو گزشتہ ایک دہائی سے دہشت گردی اور مذہب کے درمیان تعلق سے انکار کرتے رہے ہیں،شکار پورمیں اہل تشیع پر ہونے والا حملہ اور 61 لاشیں انہیں یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ دہشت گردی کا تعلق نہ صرف مذہب بلکہ مسلک اور فرقہ سے بھی ہے۔ موجودہ دہشت گرد تنظیموں کے مذہب اور مسلک سے تعلق سے انکار کا رویہ ان تحریکوں کو مزید حمایت اور طاقت فراہم کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ ان جہادی تنظیموں کے لیے پائے جانے والی ہمدردی اور حمایت ان کے خلاف کارروائی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پشاور حملے اور اب سانحہ شکار پور کے بعد بھی مذہبی تنظیمیں نہ تونصاب سے جہادی مضامین کے اخراج اور نہ ہی دہشت گردی کی وجہ بننے والی جہادی اورتکفیر ی فکر کے تدارک کے لیے مدارس کے خلاف کارروائی کی حمایت کو تیار ہیں۔مسلم دنیا نہ تو دہشت گرد فکر کی بھرپور مذمت اور تدارک پر رضامند ہے اور نہ ہی اسلام کی نئی یا ترقی پسند تشریح کو تشکیل دینے اور اپنانے کے لیے تیار ہے۔
اگرچہ متشدد مسلمان اور شدت پسند جہادی فکر کے پیروکار تعداد میں کم ہیں لیکن یہی سب سے زیادہ موثر، فعال اور بلند آواز بھی ہیں جس کے باعث اسلام کی متبادل اور امن پسند تشریح مقبول عام نہیں ہو سکی ہے۔
دہشت گردوں کے مذہب اور مسلک کے وجود سے انکار کی بدولت ان تنظیموں کے مالی و افرادی وسائل میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ان کا مذہبی بیانیہ شدید تر ہوا ہے۔ مسلم دنیا خصوصاً پاکستان دہشت گردی کی وجہ بننے والے مذہبی بیانیے کی بلا حیل وحجت تنقید اور تدارک کو تیار نہیں۔ جبکہ دوسری طرف افغان جہاد کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جہادی گروہوں کی نئی نسل نہ صرف مذہب بلکہ مسلک کی بنیاد پر تشدد کو جائز قرار دیتی ہے بلکہ اس کی ترویج کے لیے مذہبی حوالے بھی استعمال کر رہی ہے۔ اگرچہ متشدد مسلمان اور شدت پسند جہادی فکر کے پیروکار تعداد میں کم ہیں لیکن یہی سب سے زیادہ موثر، فعال اور بلند آواز بھی ہیں جس کے باعث اسلام کی متبادل اور امن پسند تشریح مقبول عام نہیں ہو سکی ہے۔ اور نہ ہی گزشتہ ایک دہائی کے دوران ریاستی سطح پر ایسی کوئی موثرکوشش کی گئی ہے۔
نو گیارہ کے بعد سے اب تک مسلم دنیا میں جہادی تنظیموں کا اثرورسوخ بڑھا ہے، ان کے لیے چندہ اور افرادی قوت کبھی بھی اس قدر ارزاں اور وافر نہیں رہے جس قدر اب ہیں۔ معتدل اور امن پسند اسلام کے داعین کو اپنی ناکامی کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ شدت پسند سیاسی اسلامی فکر اور اس کا متشدد جہادی بیانیہ دنیا کے امن کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کی معتدل آبادی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔ اسلام میں عقلیت پسندی کی کمزور اور معدوم شدہ روایت نے مسلم اکثریت کے سامنے متشدد، خود پسند اور مقلد ہونے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہنے دیا،جبکہ اپنی پسماندگی کی وجوہات مذہب سے دوری اور مغرب کے دہرے معیار میں ڈھونڈنے کے رویے نے بھی مسلمانوں کی حالت زار کو بدتر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک میں جہادی تنظیموں کی دہشت گرد کارروائیوں کو اسلام کی فتح سمجھتے ہوئے القاعدہ، طالبان،الشباب، حزب اللہ، حماس،بوکوحرام اور اب دولت اسلامیہ کی حمایت بڑھ رہی ہے۔
آج کے مسلم نوجوان کے سامنے اسامہ بن لادن، ملاعمر، ابو بکر شیکاو اور ابوبکر بغدادی کے متبادل طاقتور اور قابل تقلید مثال ابھرکر سامنے نہیں آئی۔ مسلم معاشروں کی سیاسی جماعتوں، مذہبی تحریکوں اور دینی شخصیات نے مغرب بیزاری، قدامت پسندی، تکفیریت اور نرگسیت کی جس مذہبی روایت کی حفاظت ایمان اور مذہب سمجھ کر کی ہے وہ آج کے مسلمان نوجوان کو ہتھیار اٹھانے کے اس راستے کی جانب لے جا رہی ہے جو اسلام کے صبر، برداشت، ہمہ گیریت اور امن کے عظیم الشان پیغام کی نفی ہے۔
معتدل اور امن پسند مسلم اکثریت کو اسلام کے امن پسند رخ کو نمایاں کرنے کے لیے مذہبی اور متشددجہادی بیانیے اور فکر کی نہ صرف پرزور مذمت کرنا ہوگی بلکہ ایک متبادل روشن خیال اور ترقی پسند اسلام کو نمایاں کرنے کے لیے ان تحریکوں سے خود کو کلی طور پر علیحدہ کرنا ہوگا۔ مسلم شدت پسندی کا خاتمہ تب تک ممکن نہیں جب تک مسلمان ان دہشت گردوں کے مذہب اور مسلک سے تعلق کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کے تدارک کی کوششوں کا آغاز اپنے طور پر نہیں کرتے۔ اگر معتدل اور امن پسند مسلمان اکثریت دہشت گرد تنظیموں کو اسلام کا صحیح نمائندہ تسلیم نہیں کرتی تو اسے عل الاعلان ان تنظیموں اور ان کی فکر سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اسلام کی بہتر نمائندگی کا بیڑا اٹھانا ہوگا۔
نو گیارہ کے بعد سے اب تک مسلم دنیا میں جہادی تنظیموں کا اثرورسوخ بڑھا ہے، ان کے لیے چندہ اور افرادی قوت کبھی بھی اس قدر ارزاں اور وافر نہیں رہے جس قدر اب ہیں۔ معتدل اور امن پسند اسلام کے داعین کو اپنی ناکامی کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ شدت پسند سیاسی اسلامی فکر اور اس کا متشدد جہادی بیانیہ دنیا کے امن کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کی معتدل آبادی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔ اسلام میں عقلیت پسندی کی کمزور اور معدوم شدہ روایت نے مسلم اکثریت کے سامنے متشدد، خود پسند اور مقلد ہونے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہنے دیا،جبکہ اپنی پسماندگی کی وجوہات مذہب سے دوری اور مغرب کے دہرے معیار میں ڈھونڈنے کے رویے نے بھی مسلمانوں کی حالت زار کو بدتر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک میں جہادی تنظیموں کی دہشت گرد کارروائیوں کو اسلام کی فتح سمجھتے ہوئے القاعدہ، طالبان،الشباب، حزب اللہ، حماس،بوکوحرام اور اب دولت اسلامیہ کی حمایت بڑھ رہی ہے۔
آج کے مسلم نوجوان کے سامنے اسامہ بن لادن، ملاعمر، ابو بکر شیکاو اور ابوبکر بغدادی کے متبادل طاقتور اور قابل تقلید مثال ابھرکر سامنے نہیں آئی۔ مسلم معاشروں کی سیاسی جماعتوں، مذہبی تحریکوں اور دینی شخصیات نے مغرب بیزاری، قدامت پسندی، تکفیریت اور نرگسیت کی جس مذہبی روایت کی حفاظت ایمان اور مذہب سمجھ کر کی ہے وہ آج کے مسلمان نوجوان کو ہتھیار اٹھانے کے اس راستے کی جانب لے جا رہی ہے جو اسلام کے صبر، برداشت، ہمہ گیریت اور امن کے عظیم الشان پیغام کی نفی ہے۔
معتدل اور امن پسند مسلم اکثریت کو اسلام کے امن پسند رخ کو نمایاں کرنے کے لیے مذہبی اور متشددجہادی بیانیے اور فکر کی نہ صرف پرزور مذمت کرنا ہوگی بلکہ ایک متبادل روشن خیال اور ترقی پسند اسلام کو نمایاں کرنے کے لیے ان تحریکوں سے خود کو کلی طور پر علیحدہ کرنا ہوگا۔ مسلم شدت پسندی کا خاتمہ تب تک ممکن نہیں جب تک مسلمان ان دہشت گردوں کے مذہب اور مسلک سے تعلق کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کے تدارک کی کوششوں کا آغاز اپنے طور پر نہیں کرتے۔ اگر معتدل اور امن پسند مسلمان اکثریت دہشت گرد تنظیموں کو اسلام کا صحیح نمائندہ تسلیم نہیں کرتی تو اسے عل الاعلان ان تنظیموں اور ان کی فکر سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اسلام کی بہتر نمائندگی کا بیڑا اٹھانا ہوگا۔
Leave a Reply