خلافت کے قیام اور عالمگیر غلبہ کی استعماری فکر کے مبلغین عموماًخلافت راشدہ کو اپنے لئے مثالی سیاسی نظام قرار دیتے ہیں اور قال اللہ وقال الرسول کی بنیاد پر سیاسی نظام کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ عالمگیر اسلامی ریاست کے خیال کے مسلح اور انقلابی داعین اس تاریخی حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ انبیاء اور مذاہب کبھی بھی سیاسی، معاشی یا معاشرتی نظام تشکیل دینے کے خواہاں نہیں رہے بلکہ ان کا حقیقی منتہاء انسان کی روحانی پاکیزگی اور اخلاقی بالیدگی رہا ہے۔ انبیاء کی تعلیمات میں اخلاقی رہنمائی تو موجود ہے لیکن کسی سیاسی نظام یا ریاستی ڈھانچے سے متعلق تمام صحائف، کتب حتیٰ کہ قرآن اور حدیث بھی کسی سیاسی نظام کی تشکیل اور ریاست کے بنیادی ڈھانچے سے متعلق خاموش ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی زندگی کے بیشتر برس کسی حکومت یا حکومت کے حصول کے لئے کسی بھی قسم کی جدوجہد سے عاری نظر آتی ہے۔ مدینہ کی ریاست کی تشکیل ایک وقتی ضرورت تھی اور نبوت کا پیغام پہنچانے کے لئے ایک منظم معاشرے کی تشکیل کے لئے تھی اور مذہبی فیریضہ یا منصب رسالت کے تقاضے کے تحت نہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاشرتی ضرورت کے تحت حکومت کی تھی اور ان کا مقصد کبھی بھی مذہب اور ریاست کی یکجائی یا کوئی رہنما سیاسی نظام نہیں تھا، اسی لئے اللہ اور اس کے بھیجے رسولوں نے حتی الامکان خود کو ریاست، سیاست اور اقتدار کے معاملات سے علیحدہ رکھا ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کے مابین بھی کوئی سیاسی فکر، نظریہ، ریاست کی تشکیل یا آئین سازی کا عمل نظر نہیں آتا۔ خلفاء راشدہ کا انتخاب اور ان کا طرز حکومت قدیم عرب روایات اور مسلم فتوحات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی وسعت کے نتیجے میں مکمل طور پر خلیفہ کی اپنی صوابدید پرتھے۔ باقاعدہ نظام حکومت کی تشکیل غیر عرب نو مسلم مفتوحین نے کی جو ایران یا روم کے درباروں اور سیاسی نظام سے واقف تھے۔ ابتدائی خلفاء جو صحابہ بھی تھے ان کے انتخاب اور طرزِ حکومت میں کوئی مماثلت نہیں بلکہ ایک قبائلی جمہور کی بتدریج ملوکیت اور شہنشاہیت میں تبدیلی کا فطری عمل ہے اور اس سے بھی اسلام میں کسی سیاسی نظام کی موجودگی کی نفی ہوتی ہے۔
ابتدائی خلفاء جو صحابہ بھی تھے ان کے انتخاب اور طرزِ حکومت میں کوئی مماثلت نہیں بلکہ ایک قبائلی جمہور کی بتدریج ملوکیت اور شہنشاہیت میں تبدیلی کا فطری عمل ہے اور اس سے بھی اسلام میں کسی سیاسی نظام کی موجودگی کی نفی ہوتی ہے۔
امت مسلمہ میں بعد از پیغمبرِ اسلام دو طرح کے سیاسی گروہ سامنے آۓ، ایک خلافت جس کے اہلسنت قائل ہیں اور دوسرا امامت جس کے اہلِ تشیع قائل ہیں۔ اہلسنت پیغمبرِ اسلام اورپہلے چار اسلامی خلفاٴ کی خلافت راشدە کے دور کو تاریخ ِ انسانی کا سنہری اور بہترین دور قرار دیتے ہیں اور اسی نظام کو دنیا پر لاگو کرنے کے خواہشمند ہیں جب کہ اہل تشیع اس معاملے کو اختلافی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں جبکہ ہندوستانی مسلمانوں کو بڑا فرقہ جو بریلوی مسلک پر مشتمل ہے خود کو سیاسی عمل سے علیحدہ رکھے ہوئے ہے۔
اسلامی خلافتِ راشدە کے دور میں خلیفہ کے چناوٴ اور انتقالِ اقتدار کے واقعات کا بغور مشاہدە کرنے سے ایک اہم حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مسلم خلافت کے پاس پرُ امن انتقالِ اقتدار کا کوئی موثر طریقہ کار موجود نہ تھا اور نہ ہی کسی نااہل، ناکام، غیرمقبول خلیفہ کی تبدیلی کے لیے کوئی نظام تھا۔ خلیفہ کے دورِ خلافت کی معیاد یا مدت کا بھی تعین نہ کیا گیا تھا ان تمام اہم امور پر قرآن اور پیغمبر خاموش دکھائی دیتے ہیں۔ اس خاموشی کے بعد امتِ مسلمہ کے پاس خلیفہ کی تبدیلی کے لیے دو ہی راستے باقی بچتے تھے، پہلا راستہ کہ خلیفہ بذریعہ طبعی موت اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور دوسرا راستہ یہ کہ امت خود خلیفہ کے خلاف خروج کرے۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدتِ خلافت 2 سال تھی اور اُنکی طبعی موت ہوئی جبکہ عمرخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ 10 سال، عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ 12 سال، علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ 5 سال کی طویل مدت تک مسندِ خلافت پر براجمان رہے اور تینوں خلفاٴ راشدین کو بغاوت کے نتیجے میں شہید کرکے اقتدار سے علیحدە کیا۔ ان اہم امور پر قرآن اور پیغمبر کی خاموشی اور غیر واضح اسلامی نظامِ ریاست بعد از رحلتِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امتِ مسلمہ کا سب سے نازک اور حساس مسلہٴ بن کر سامنےآیا۔ امت حصولِ اقتدار کے لیے آپس میں خونی معرکوں میں برسرپیکار ہوئی جس میں لاکھوں مسلمان جان سے گۓ اور گروە بندی و نفاق کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ آج بھی خلیفہ کے انتخاب اور معزولی کے لئے امت مسلمہ کے سیاسی مفکرین کے پاس کوئی واضح سیاسی طریق کار موجود نہیں، اسی لئے اسلامی جمہوریت یا اسلامی اشتراکیت جیسی تراکیب وضع کی جاتی ہیں۔ اسکی مثال امارتِ اسلامیہ افغانستان ہے جہاں کے طالبان کے خلیفہ یا امیر مُلا عمر 1995 میں طالبان کے شرعی خلیفہ مقرد ہوۓ اور آج 19 سال گزر جانے کے بعد بھی معلوم نہیں کب تک خلیفہ کی مسند پر براجمان رہیں گے۔پاکستان میں اسلامی جمہوریت اور اسلامی اشتراکیت دونوں ترایکیب مخلتلف مذہبی و غیر مذہبی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے استعمال کی ہیں ۔
اسلام اپنے پیروکاروں کو زمانے کے مطابق اپنے سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی نظام، قوانین اور اخلاقیات طے کرنے کا مکمل اختیار دیتا ہے، اس لئے مذہبی ریاست یا مذہبی سیاسی نظام کے قیام کی خواہش اسلام کے بنیادی پیغام کو سیاسی مقاصد اورمعاشی مفادات کے حصوال کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں۔
خلافت کے ساتھ ساتھ مذہبی رہنمائی کے لئے امام کے انتخاب کا مسئلہ مسلمانوں کے دوسرے بڑے فرقے سے تعلق رکھنے والے اہل تشیع کے لئے باعث نزع رہا ہے اور اس مقصد کے لئے بھی خون بہایا جاتا رہا ہے۔
اسلامی تاریخ اس امر کی گواە ہے کہ اسلامی نظامِ ریاست میں منصب خلافت و امامت کے تعین کےلیے کوئی واضح راستہ نہیں اور نہ ہی پُرامن انتقالِ اقتدار کا کوئی ٹھوس یا مربوط طریقہ کار موجود ہے۔ مسلم خلافت کی اس کمزوری اور سقم کو دور کرنے اور اس نظام کو زمین بوس ہونے سے بچانے کےلیے جمہوریت کی چھتری تلے پناە لی گئ اور "اسلامی جمہوریہ” کی اصطلاح ایجاد کی گئ۔ درحقیقت "اسلامی جمہوریہ” کی ایجاد اس دعوی کی دلیل ہے کہ اسلام کا مقصد کسی بھی طرح کوئی سیایس نظام دینا نہیں تھا ۔ اسلامی نظامِ ریاست کے اس پھیکے پکوان کو جمہوریت کا تڑکا لگا کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئ ہے۔ آدھاتیتر آدھابٹیر نُما سسٹم وجود میں لایا گیا جو کہ نہ مکمل اسلامی ہے اور نہ مکمل جمہوری ہے۔ اپنی سیاسی حیثیت مستحکم کرنے کے لئے مذہب کو استعمال کرنے اور عوامی رائے دہندگی کے تحت اقتدار حاصل کرنے میں ناکام رہنے والے مذہبی علماء ہی جمہوریت کو احکاماتِ قرآنی و فرموداتِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واضح نافرمانی قرار دیتے ہیں۔ اسلام اپنے پیروکاروں کو زمانے کے مطابق اپنے سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی نظام، قوانین اور اخلاقیات طے کرنے کا مکمل اختیار دیتا ہے، اس لئے مذہبی ریاست یا مذہبی سیاسی نظام کے قیام کی خواہش اسلام کے بنیادی پیغام کو سیاسی مقاصد اورمعاشی مفادات کے حصوال کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں۔

One Response

  1. Meesum Zaidi

    اہل تشیع میں منصب امامت منصوص من اللہ ہوتا ہےاور امام اپنی زندگی میں اگلا امام نامزد کرتا ہے۔ مزید یہ کہ امام کی نمازجنازہ امام ہی پڑھاتا ہے۔ اسماعیلی فرقہ کو اثناعشری شیعوں کے نزدیک ان کو جعفری تسلیم نہیں کیا جاتا۔ حمزہ بن طارق صاحب اہل تشیع میں امامت کی تاریخ پڑھ کر لب کشائی کرتے تو تجزئے کو چار چاند لگ جاتے۔ لگتا ہے موصوف نے سکور برابر کرنے کی کوشش کی ہے

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: