Laaltain

استاد سموسے والا

24 مارچ، 2016
موسے کا محض لذیذ ہونا بڑی بات نہیں ہے مزا تب ہے کہ سموسہ کھانے کے بعد طبیعت میں گرانی نہ آئے اور نظامِ انہضام ہلکا پھلکا رہے گویا گھر سے کھانا کھایا ہو”
“سموسے کا محض لذیذ ہونا بڑی بات نہیں ہے مزا تب ہے کہ سموسہ کھانے کے بعد طبیعت میں گرانی نہ آئے اور نظامِ انہضام ہلکا پھلکا رہے گویا گھر سے کھانا کھایا ہو” ۔
یہ کہنا ہے شیخوپورہ کی تحصیل صفدرآباد کے اُستاد سموسے والے کا، موصوف اپنے لذیذ اور زود ہضم سموسوں کی وجہ سے اس قدر مشہور ہیں کہ انہیں مشاق حسین کے نام سے بس ان کے گھر والے ہی جانتے ہیں، بقیہ جہان کے لیے وہ استاد سموسے والا ہیں۔

 

مشتاق حسین عرف اُستاد سموسے والا گزشتہ چار عشروں سے صفدرآباد میں سموسے بنا رہا ہے۔ استاد سموسے والے نے آغاز میں صفدرآباد کے مشہور حلوائیوں مان، شیرا، غفور کمہار اور شیدا کے ساتھ 1965 سے 1973 تک بطور کاریگر 20 روپے ماہوار اجرت پر کام کیا بعد ازاں شیرے حلوائی سے تنخواہ بڑھانے کی تکرار پر استاد نے اپنا الگ کام کرنے کی ٹھانی۔اور 1973 میں اپنی دکان شہر کی غلہ منڈی میں بنائی۔

 

مشتاق حسین المعروف استاد سموسے والا
مشتاق حسین المعروف استاد سموسے والا
پہلے پہل اُستاد نے پوڑیاں اور سموسے بنانا شروع کیے مگر وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کا عمومی رجحان حلوہ پوڑی سے ہٹ کر نان چنے کی طرف ہوتا گیااور پوڑیوں کی بِکری ماند پڑنے لگی تو اُستاد نے پوڑیاں بنانا بند کر د یں۔ اور صرف سموسے ہی بنانے لگا۔ 70 کی دہائی میں ابھی چھوٹے شہروں کے لوگ دہی بڑے فروٹ چاٹ اور سموسے جیسے سہل کھانوں کے عادی نہیں ہوئے تھے، لیکن جیسے جیسے زندگی تیز ہوتی گئی اُستاد کا کاروبار بھی چمکتا گیا۔

 

اُستاد کا کہنا ہے کہ سموسے کو عروج نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت 1997 میں ملا جب شادی بیاہ پہ بڑے بڑے کھانوں پہ پابندی عائد کی گئی اور کھانے کی جگہ مٹھائی، سموسہ اور چائے نے یہ جگہ لے لی۔

 

اُستاد نے بتایا کہ وُہ اپنے سموسوں میں مرچ مسالے کا استعمال بڑا ناپ تول کے اور احتیاط سے کرتا ہے اور ہمیشہ بہترین گھی میں سموسے بناتا ہے کیونکہ دوسری صورت میں جب مرچ مسالہ اور ناقص گھی ہو گا تو لوگ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے جو انہیں سموسے کھانے سے منع کر دے گا اسی وجہ سے وُہ ہمیشہ ان دونوں باتوں کا خاص خیال رکھتا ہے۔

 

میں نے اُستاد سے پوچھا کہ کیا آپ کو پتا ہے کہ آپ کے سموسوں جیسے لذیذ اور صحت دوست سموسے کہیں اور نہیں ملتے یہ سچ میں بے مثال ہیں تو مُسکرا کے کہا کہ” یہ تو آپ ہی بہتر بتا سکتے ہیں میں باقی جگہوں اور دکانوں سے اتنا واقف نہیں ہوں”۔

 

اُستاد کا کہنا ہے کہ سموسے کو عروج نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت 1997 میں ملا جب شادی بیاہ پہ بڑے بڑے کھانوں پہ پابندی عائد کی گئی اور کھانے کی جگہ مٹھائی، سموسہ اور چائے نے یہ جگہ لے لی۔
استاد کے اپنے کاریگروں سے رویے کا اندازاہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے دو کاریگر گزشتہ 20 سال سے اس کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

 

اس سوال کے جواب میں کے آپ اپنا ہنر آگے منتقل کر رہے ہیں کہ نہیں؟ اُستاد نے بتایا کہ اس کا بڑا بیٹا ایم ۔ بی ۔اے تک پڑھا ہے اور سوئی گیس کے محکمے میں افسر ہے لیکن چھوٹا بیٹا سموسوں کا کام سیکھ رہا ہے۔

 

صفدر آباد شہر اور اس کے نواحی گاؤں دیہات کا شاید ہی کوئی مرد و زن ایسا ہو جو دعوے سے کہہ سکے کہ اس نے اُستاد کے سموسے نہیں کھائے۔استاد کے لیے اس کے ہنر کی اس سے بڑی تعریف کیا ہو گی کہ اس کے علاقے کے لوگ جب کہیں اور سموسے کھائیں اور کہیں کہ “نیں یار مزا نیں آیا سموسے اپنے ڈھاباں شہر دے اُستاد دے ودیا نیں”۔اور میکڈونلڈ کے ایف سی پیزا ہٹ وغیرہ پہ بیٹھے یہ کہہ ڈالیں کہ “ایدے نالوں تے اُستاد دے سموسے چنگے نیں۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *