خیبر پختونخواہ حکومت نے تعلیمی اداروں کے تحفظ کے لیے تدریسی و غیر تدریسی عملہ کو تعلیمی اداروں کی حدود کے اندر لائسنس یافتہ اسلحہ رکھنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ فیصلے کا مقصد دہشت گردوں کے حملے کی صورت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے پہنچنے تک حملہ آوروں کوالجھائے رکھنا ہے۔ صوبائی کابینہ کے اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے وزیراطلاعات خیبرپختونخواہ مشتاق غنی نے پولیس اہلکاروں کی کمی کے باعث کمیونٹی پولیس کے تصور کے اطلاق کا فیصلہ کیا ہے۔
،طالب علموں اور استادوں کے ہاتھوں میں بندوقیں تھمانا مناسب نہیں، کتابوں میں موجود بارود مٹائے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا کیوں کہ نظریات بندوقوں سے ختم نہیں ہو سکتے۔
مشاتق غنی نے صحافیوں کو تعلیمی اداروں کی سکیورٹی سے متعلق حکومتی اقدامات سے بھی آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سکولوں کے تحفظ کے لیے چار دیواری کی تعمیرو توسیع، کلوزسرکٹ کیمروں کی تنصیب اور محافظوں کی تعداد میں اضافہ تمام درسگاہوں کے لیے لازم قرار دے دیا گیا ہے۔ خیبر پختونخواہ حکومت نے سکیورٹی اقدامات مکمل کیے بغیر نئے تعلیمی اداروں اور ان کے کیمپسز کے قیام پر بھی پابندی عائد کی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پنجاب حکومت نے بھی دہشت گردوں کا امقابلہ کرنے کے لیے کالج طلبہ کے لیے شہری دفاع کی تربیت شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ماہرین تعلیم نے خیبر پختونخواہ حکومت کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور صوبائی حکومت کو شدت پسندی کے خاتمے کے درست حکمت عملی اپنانے کا مشورہ دیا ہے،ماہر تعلیم سلیم سرور کے مطابق عام شہریوں کے ہاتھوں میں ہتھیار تھمانا مناسب نہیں،”مدارس اور عام تعلیمی اداروں نصاب تعلیم کو بدلے بغیر دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا،”طالب علموں اور استادوں کے ہاتھوں میں بندوقیں تھمانا مناسب نہیں، کتابوں میں موجود بارود مٹائے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا کیوں کہ نظریات بندوقوں سے ختم نہیں ہو سکتے۔ ”
ماہرین تعلیم نے خیبر پختونخواہ حکومت کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور صوبائی حکومت کو شدت پسندی کے خاتمے کے درست حکمت عملی اپنانے کا مشورہ دیا ہے،ماہر تعلیم سلیم سرور کے مطابق عام شہریوں کے ہاتھوں میں ہتھیار تھمانا مناسب نہیں،”مدارس اور عام تعلیمی اداروں نصاب تعلیم کو بدلے بغیر دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا،”طالب علموں اور استادوں کے ہاتھوں میں بندوقیں تھمانا مناسب نہیں، کتابوں میں موجود بارود مٹائے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا کیوں کہ نظریات بندوقوں سے ختم نہیں ہو سکتے۔ ”
Leave a Reply