یہ اس وقت کی بات ہے جب میں نویں جماعت میں تھا۔ اسکول کا پہلا دن تھا اور انگریزی کی استانی کلاس میں داخل ہوئیں اپنا تعارف انگریزی میں کرایا اور ہم پر بھی یہ پابندی عائد کر دی کہ سب اپنا تعارف کروائیں مگر انگریزی میں۔ ایک ایک کر کے سب اپنا تعارف کرواتے گئے اور میری باری آنے پر میں کھڑا ہوا اپنا نام بتایا اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں شروع ہو گیا جس پر پوری کلاس قہقہوں سے گونج اُٹھی، انگریزی زبان سے ناآشنائی پر مذاق اُڑایا جانے لگا۔
زبانوں کی تدریس جس مشینی انداز میں کی جاتی ہے اس کی وجہ سے انگریزی اور اُردو کے مضامین میں ادب جیسی دلچسپ اور رومان پرور شے بھی ہمارے لیے جوشاندے کا مرکب ثابت ہوئی
استانی صاحبہ نے بھی حوصلہ شکنی کی اور شرمندہ کیا۔ انہوں نے میرے سامنے انگریزی کا ایک جملہ رکھا اورکہا اس کا ترجمہ کرو مجھ سے وہ بھی نہ ہوا۔ مزید شرمندگی، ڈانٹ ڈپٹ اور تضحیک کا سامنا کرنا پڑا جس سے میرے جذبات کو مزید ٹھیس پہنچی اور اس دن سے میں خود سے ہی ایک جنگ لڑنے لگا۔ مگر آخر کیوں؟ اس زمانے میں اساتذہ کی جانب سے یہ دباو معمول کی بات تھی کہ انگریزی سیکھو گے تو ہی کامیاب ہو گے۔ بعض سکولوں میں تو انگریزی کے سوا کسی اور زبان میں بات کرنے پر جرمانے بھی عائد کیے جاتے تھے۔ ہم نے وہ زمانہ یہی سوچتے گزار دیا کہ کاش انگریزی کا مضمون نہ ہوتا صرف اُردو ہی پڑھنا پڑتی اور اردو میں بھی اگر اساتذہ کی کلاسیکی شاعری نہ پڑھائی جاتی تو خوب تھا۔ جن طلبہ کو عربی کی لازمی تدریس کا سامنا ہے ان سے ہمدردی تب دوچند ہو جاتی جب ہمیں انگریزی کے مختلف زمانے رٹانے کی کوشش کی جاتی یا گرامر کا گھوٹا لگوایا جاتا۔۔۔۔۔ زبانوں کی تدریس کا معاملہ جس قدر غیر دلچسپ تھا اس سے زبان تو نہ آئی لیکن انگریزی کا دبدبہ اور رعب ضرور دلوں میں بیٹھ گیا، جہاں کوئی صاحب انگریزی بولتے مل جاتے ہم سمجھتے کہ یہی صاحب علم اور یہی دانشور ہیں۔
زبانوں کی تدریس جس مشینی انداز میں کی جاتی ہے اس کی وجہ سے انگریزی اور اُردو کے مضامین میں ادب جیسی دلچسپ اور رومان پرور شے بھی ہمارے لیے جوشاندے کا مرکب ثابت ہوئی، پورے پرچے میں سب سے مشکل چیز اشعار کی تشریح معلوم ہوا کرتی تھی۔ اشعار کی تفہیم کے مقابلے میں شعراء کے نام یاد کرنے پر زیادہ زور دیا جاتا تھا جس کی کوئی توجیہہ سمجھ نہیں آتی۔ بدقسمتی سے تدریس کا یہ استادی چلب آج بھی برقرار ہے اور زبان و ادب کی تدریس کے باعث ہم جیسے آدھے تیتر half Quail پیدا ہو رہے ہیں۔
اعلیٰ تعلیم کے مدارج طے کرنے کے لیے بہرحال میں نے کوشش کر کے اپنی انگریزی کوکچھ بہتر تو بنا لیا مگراُردو آتے آتے بھی نہ آئی۔ ان دو زبانوں کا آپس میں توازن برقرار نہ رکھ پانا آج بھی میری بہت بڑی کمزوری ہے۔ میں اگر انگریزی میں اچھا نہیں ہوں تو اُردو میں بھی اظہار پر قادر نہیں ہوں۔ یہ مسئلہ اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ میرے سامنے تب آشکار ہوا جب چند روز پہلے یونیورسٹی میں “انگلش فار میڈیا” کی کلاس میں بیٹھا استاد صاحب کی گفتگو سُن رہا تھا۔
میرے نزدیک اردو کے زوال پذیر ہونے کا معاملہ ہمیں برصغیر میں انگریز دور میں لے جائے گا جب سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو انگریزی سیکھنے کی تلقین کی تھی۔
استاد محترم نے ایک سوال کیا کہ انگریزی سیکھنا کیوں ضروری ہے۔ میں نے دل میں سوچا میری تو اُردو بھی ٹھیک نہیں انگریزی کے بارے میں کیا خاک لکھ پاوں گا۔ خیر میں نے لکھنا شروع کیا اور چار سے پانچ وجوہ ٹھریر کیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ انگریزی اس لیے زیادہ اہم ہوگئی ہے کیونکہ اُردو “ہماری” زبان ہونے کے باوجود زوال کا شکار ہے۔ میرے نزدیک اردو کے زوال پذیر ہونے کا معاملہ ہمیں برصغیر میں انگریز دور میں لے جائے گا جب سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو انگریزی سیکھنے کی تلقین کی تھی۔ اس کے پیچھے سرسید کے دو مقاصد تھے ایک تو انگریزوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری اور دوسرا سائنسی علوم کا انگریزی میں ہونا تھا جس کی سمجھ بوجھ کے لیے انگریزی سیکھنا ضروری تھا۔ تاہم سر سید احمد خان کی جانب سے صحافت اور تصنیف و تالیف کے معاملے میں اردو کو جدت سے روشناس کرانے سے اردو کو جو عوامی پذیرائی ملی وہ ابھی اپنی جگہ اہم ہے۔ لیکن کیا پاکستان اور ہندوستان میں اردو کے زوال کی ذمہ داری سرسید پر ڈالی جا سکتی ہے؟
یقیناً نہیں۔ اُردو کے زوال کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔ اس میں انگریزی کا کوئی قصور ہے اور نہ ہی “انگریز کے ایجنٹ کا”۔ ہم معاملہ فہم نہ تھے اور نہ اب ہیں۔ یہ ہماری سیاسی ترجیحات تھیں جن کی بناء پر ہم نے اردو اور مقامی زبانوں کو اپنانے سے گریز کیا۔ اگر انگریزی کو اُردو پر ترجیح دینا غلط طرز عمل ہے تو ہم یوں کر لیں کہ اب سے ان دونوں زبانوں کو برابر خیال کر کے صحیح طور سے سیکھنا شروع کریں۔ ہم انگریزی بھی بولیں مگر آپس میں اپنی زبان بولنے میں بھی فخر محسوس کریں۔ میرے ایک بہت ہی قریبی دوست چند ماہ قبل ترکی کے دورے پر گئے جہاں انہیں انگریزی نے بڑی مدد دی مگر ایک دن جب وہ استنبول کے ایک ریستوران میں اپنے گھروالوں کے ساتھ کھانا کھانے گئے تو وہاں ایک ویٹر مسلسل ان کی جانب متوجہ تھا ان کی باتیں غور سے سُن بھی رہا تھا۔ جب وہ بیرا بِل لے کر آیا تو اس نے میرے دوست سے پوچھا کہ آپ کہاں سے ہیں؟ اس نے کہاں پاکستان سے۔ وہ بیرا حیران ہوا اور پھر پوچھا تو کیا پھر آپ یو کے یا امریکہ میں پلے بڑھے ہیں؟ میرے دوست نے نفی میں جواب دیا اور کہا کہ ہم پاکستان میں ہی پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے ہیں۔ ویٹر اور حیرت میں مبتلا ہوا آخر کار بولا۔ تو آپ پاکستانی زبان کیوں نہیں بولتے؟ یہاں دنیا کے ہر کونے سے لوگ آتے ہیں ہم سے انگریزی میں بات کرتے ہیں مگر آپس میں وہ ہمیشہ اپنی زبان میں بات کرتے ہیں۔
اپنی زبان (زبانوں) سے متعلق احساس کمتری ہماری زبانوں سے متعلق سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ہمیں اُردو اور انگریزی دونوں کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے انہیں دو زبانوں کی طرح ہی دیکھنا ہو گا۔ ہمارے لیے دونوں زبانوں کے سیکھنے کی وجوہ موجود ہیں، انگریزی جسے ہم بدیسی زبان کہہ کر مسترد کرتے آئے ہیں اب دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے اور اردو پاکستان میں چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی ابلاغ عام اور رابطے کی زبان بن چکی ہی۔ ان حقائق کے پیش نظر انگریزی سیکھنا بھی کمال ہے مگر اُردو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
کسی بھی زبان کو حب الوطنی یا وطن دشمنی کے تحت سیکھنے یا نہ سیکھنے کی بجائے ذاتی دلچسپی، معاشی ضروریات اور عملی فوائد کے لیے سیکھنے کی کوشش کیجیے اس سے زبان کا بھی بھلا ہو گا اور آپ کا بھی۔
یاد رہے زبان کوئی بھی بُری نہیں ہوتی بلکہ یہ انسان کی اپنی سوچ اور ذہنی صلاحیت پر منحصر ہے۔ اگر آپ اُردو کے ساتھ انگریزی بھی سیکھتے ہیں تو یہ عمل بالکل بھی آپ کو مغرب پسند ثابت نہیں کرتا بلکہ عالمی علم و ادب کے دریچے آپ پر وا کرتا ہے۔ کسی ایک زبان سے نفرت کر کے آپ کسی دوسری زبان کو اس طرح سے اہمیت نہیں دلوا سکتے۔ اگر ایسا ہی ہوتا تو آج ہم دو زبانوں میں لٹکی ہوئی قوم نہ ہوتے۔ زبان سیکھنا ایک مفید عمل ہے، ایک سے زائد زبانیں بولنے والے لوگ عام لوگوں سے زیادہ ذہین اور فعال ہوتے ہیں اور ان کا آئی کیو لیول بھی عام انسان سے بہتر ہوتا ہے۔ اصل مسئلہ ایک یا ایک سے زائد زبان سیکھنے کا نہیں بلکہ زبان کی ناقص، غیر تخلیقی اور غیر ضروری تدریس کا ہے۔
لہٰذاآج جہاں بھی ہم کھڑے ہیں ہمارے لیے یہ طے کرنا بہت ضروری ہے کہ ہمیں کیا سیکھنا ہے اور کیوں سیکھنا ہے۔ انگریزی اور اُردو کے دوراہے پر کھڑے حضرات مزید کنفیوژن کا شکار نہ ہوں بلکہ آج سے ہی سیکھنا شروع کریں۔ موجودہ تعلیمی انظام کو طلبہ کو معاشی اور عملی تقاضوں کے مطابق زبانوں کی تدریس کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ نظام تعلیم میں فوری بہتری کی امید تو خام خیالی ہے لیکن خود تدریسی کا راستہ بہر حال موجود ہے۔ کسی بھی زبان کو حب الوطنی یا وطن دشمنی کے تحت سیکھنے یا نہ سیکھنے کی بجائے ذاتی دلچسپی، معاشی ضروریات اور عملی فوائد کے لیے سیکھنے کی کوشش کیجیے اس سے زبان کا بھی بھلا ہو گا اور آپ کا بھی۔