بے چاری اردو زبان جو ویسے ہی ستم گروں کے نشانے پر رہتی تھی پر ایک بار پھر غیظ وغضب کے بادل منڈلا رہے ہیں۔جیسے ہی حکومت کی طرف سے اردو کو دفاتر میں رائج کرنے کا ابتدائی کام شروع کرنے اعلان ہوا ،یاروں کے دلوں پر سانپ لوٹنے لگے اور زبانیں زہر اگلنے لگیں۔ اردو سے نفرت سے کا اژدھا گویا ایک با رپھر زبان لپلپانے لگا۔ کسی کو اردو کی حیثیت اور مقام سے شکوہ ہوا تو کسی گرگ باراں دیدہ کو قائد اعظم کے اردو کو پاکستان کی زبان قرار دینے میں گناہ ہی گناہ نظر آنے لگے۔ کچھ کے خیال میں یہ ہندوستانی زبان ہے۔
پاکستان میں یوں تو کم و بیش ستر زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ان میں سے بہت سی زبانوں کو اردو اور انگریزی کے فروغ کی وجہ سے معدوم ہوجانے کا خطرہ درپیش ہے۔ پنجابی پاکستان کے 54 فی صدافراد کی جبکہ پشتو 15 فی صد، سندھی 14 فی صد، بلوچی 3.6 فیصد اور اردو 8 فی صد افراد کی مادری زبان ہے۔ اردو اگرچہ ایک اقلیت کی مادری زبان ہے تاہم ملک بھر میں اکثریت اس سے واقفیت رکھتی ہے۔
پاکستان میں یوں تو کم و بیش ستر زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ان میں سے بہت سی زبانوں کو اردو اور انگریزی کے فروغ کی وجہ سے معدوم ہوجانے کا خطرہ درپیش ہے۔ پنجابی پاکستان کے 54 فی صدافراد کی جبکہ پشتو 15 فی صد، سندھی 14 فی صد، بلوچی 3.6 فیصد اور اردو 8 فی صد افراد کی مادری زبان ہے۔ اردو اگرچہ ایک اقلیت کی مادری زبان ہے تاہم ملک بھر میں اکثریت اس سے واقفیت رکھتی ہے۔
علاقائی زبانیں چونکہ ایک خاص خطے سے منسوب ہوتی ہیں اس لیے ان پر غیر شعوری طور پر علاقائی رسم ورواج کی ایک جداگانہ چھاپ ہوتی ہے جو انہیں ایک ہمہ جہت معاشرے میں قومی زبان کے طور رائج کرنے کی راہ میں حائل ہوتی ہے
پنجابی پاکستان کی سب سے بڑی علاقائی زبان ہے جو 54 فی صدپاکستانیوں کی مادری زبان ہے۔مجموعی طور پر پنجابی دنیا بھر میں تسلیم شدہ زبانوں میں سے ایک ہے اور نویں بڑی زبان ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سے سے متعلق مواد،ویب سائٹ،موبائل ایپس اور ونڈوز سافٹ وئیرز کا پنجابی ترجمہ بھی گورمکھی اور شاہ مکھی میں کیا جارہا ہےجو یقینا ایک بڑی پیش رفت ہے۔ لیکن ابھی تک اسکولوں یا مدرسوں میں پنجابی زبان کی بنیادی تعلیم کا انتظام نہیں کیا جاسکا ہے۔البتہ میٹرک ، انٹر اور گریجوایشن کی سطح پر پنجابی ایک اختیاری مضمون کے طور پر پڑھایا جارہا ہے۔ پنجابی میں ڈگری کی سطح کی تعلیم بھی دی جارہی ہے۔ تاہم،یہ پڑھائی ابھی صرف زبان و ادب تک محدود ہے مذہب، سائنس، ریاضی اور دیگر عصری موضوعات پر پنجابی زبان میں مقامی سطح پر قابل ذکر نصاب موجود نہیں۔یہی صورتحال کم وبیش دوسری علاقائی زبانوں کے ساتھ ہے۔ علاقائی زبانیں چونکہ ایک خاص خطے سے منسوب ہوتی ہیں اس لیے ان پر غیر شعوری طور پر علاقائی رسم ورواج کی ایک جداگانہ چھاپ ہوتی ہے جو انہیں ایک ہمہ جہت معاشرے میں قومی زبان کے طور رائج کرنے کی راہ میں حائل ہوتی ہے۔ سب سے بڑھ کریہ کہ اگر ذریعہ تعلیم کو مقامی زبانوں تک محدود کر دیا جائے تو آنے والے وقتوں میں ملک کے مختلف خطوں کے درمیاں دوریوں میں اور بھی اضافہ ہونے کا امکان بڑھ جائے گا ۔ اس کے علاوہ،عام طور پر مقامی زبانیں پڑھنے کا کوئی ایسا قابل ذکر رجحان نظر نہیں آتا۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے بچوں کو اردو یا انگریزی تعلیم دلوانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔علاقائی زبانوں کے تعلیمی اداروں میں رائج نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے۔
پاکستان کی 75 فی صد آبادی پہلے ہی رابطے کی زبان کے طور پراردو کااستعما ل کر رہی ہے اس لیے اسے دفتری اور تدریسی زبان کے طور پر رائج کرنا مشکل نہیں۔
جبکہ اردو ایک غیرجانبدار زبان ہوتے ہوئے بھی پاکستان کی دوسری زبانوں سے جڑی ہوئی ہے اور رابطے کا بہترین ذریعہ ہے اور مختلف قومیتوں کے افراد کے درمیان تفاوت دور کرنے اور یکساں انداز میں علم حاصل کرنےکا موزوں ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ مسلمانوں کا ایک قابل قدر عملی و ادبی ذخیرہ بھی اردو زبان میں پہلے سے محفوظ ہے۔اردو کی مخالفت میں ایک دلیل یہ بھی ہے کہ چونکہ بنگلہ دیش کا قیام ایک علاقائی زبان کی بنیاد پرہوا تو اسی بنا پر پاکستان میں ہر صوبے کی قومی زبان اس کی علاقائی زبان کوبنا دینا چاہیے۔مگر اردو کے برعکس،بنگالی زبان آج بھی صرف بنگلہ دیش اور ہندوستان کے کچھ علاقوں تک محدود ہے جبکہ اردو ایک بین الاقوامی زبان ہے اور دنیا بھر میں اردو پڑھنے،لکھنے اور بولنے والے موجود ہیں جو محض پاکستان ہندوستان تک محدود نہیں ۔.
علاقائی زبانوں کی اہمیت اور معاشرے میں ان کا مقام اپنی جگہ لیکن رابطے کے لیے اردو کو اپنانے میں کوئی حرج نہیں۔ بلاشبہ علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینا بھی کچھ ایسا غلط مطالبہ نہیں۔اگر ہم پڑوسی ہندوستان کی طرف دیکھیں تو اس وقت کم و بیش بائیس علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے ۔جبکہ بنیادی رابطے کی زبان ہندی ہے جسے مختلف مقامی لہجوں کو ملا تقریباً چالیس کروڑ لوگ استعمال کر رہے ہیں ۔ پاکستان کی 75 فی صد آبادی پہلے ہی رابطے کی زبان کے طور پراردو کااستعما ل کر رہی ہے اس لیے اسے دفتری اور تدریسی زبان کے طور پر رائج کرنا مشکل نہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداداردو لکھ پڑھ اور بول سکتی ہے،اس زبان میں نصاب موجود ہے ذرائع ابلاغ اور نشرواشاعت کا عمل جاری ہے اس لیے اردو کو رابطے کی زبان بنانے میں کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیئے۔
علاقائی زبانوں کی اہمیت اور معاشرے میں ان کا مقام اپنی جگہ لیکن رابطے کے لیے اردو کو اپنانے میں کوئی حرج نہیں۔ بلاشبہ علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینا بھی کچھ ایسا غلط مطالبہ نہیں۔اگر ہم پڑوسی ہندوستان کی طرف دیکھیں تو اس وقت کم و بیش بائیس علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے ۔جبکہ بنیادی رابطے کی زبان ہندی ہے جسے مختلف مقامی لہجوں کو ملا تقریباً چالیس کروڑ لوگ استعمال کر رہے ہیں ۔ پاکستان کی 75 فی صد آبادی پہلے ہی رابطے کی زبان کے طور پراردو کااستعما ل کر رہی ہے اس لیے اسے دفتری اور تدریسی زبان کے طور پر رائج کرنا مشکل نہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداداردو لکھ پڑھ اور بول سکتی ہے،اس زبان میں نصاب موجود ہے ذرائع ابلاغ اور نشرواشاعت کا عمل جاری ہے اس لیے اردو کو رابطے کی زبان بنانے میں کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیئے۔
عمدہ تحریر! ✌