ادب اور فن انسانی جذبات کے اظہار کا سب سے حسین ذریعہ مانے جاتے ہیں۔ ادب کا خمیر اسی دن رکھا گیا جب انسان نے بولنا شروع کیا۔ بولنے سے اظہار کی قوت پیدا ہوئی، لکھائی کی دریافت کے بعد یہی اظہار کی قوت ادب قرار پائی۔ خطہ زمین جہاں آج پاکستان واقع ہے تاریخِ ادب میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ مشہور کتھا ‘پنج تنتر’ جو افسانوی ادب کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے اور جسے عربی فارسی اور یہاں تک کہ انگریزی کہانیوں کا ماخذ مانا جاتا ہے یہیں تشکیل پایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ایسا شاہکار ادب تخلیق ہوا تو اس زمانے میں کوئی سلطنت، حکومت اور طاقت ایسی نہ تھی جو اس کی سرپرستی کرتی۔ وادی سندھ کی کھدائی سے جہاں اس خطہ زمین کی تاریخی اہمیت کے بارے میں اور بہت سے ثبوت فراہم ہوئے ہیں وہیں حیرت انگیز انکشاف یہ بھی ہوا ہے کہ سندھی تہذیب کے کسی گاوں کی باقیات سے کسی محل سرا، بڑی حویلی یا دربار کا سراغ نہیں ملا۔ عظیم الشان محلات اور عمارات کی عدم موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ ایک ایسا معاشرہ تھا جہاں امرا، روسا کا اثر و رسوخ بہت کم تھا۔
علوم و فنون کی سرکاری سرپرستی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما رہے ہیں،حکمرانوں کی ذاتی علم دوستی اپنی جگہ لیکن ادیبوں کی سرپرستی اس لیے بھی کی جاتی رہی ہے تاکہ کہیں ادیب کی زبان یا قلم سے کچھ ایسا نہ نکل جائے جس سے حکمران طبقے کی اجارہ داری کو خطرہ لاحق ہو
سمراٹ اشوک کا دورحکومت اس خطے کا سنہری دور ہےجب ادب اور فنون کی سرکاری سرپرستی کی گئی اور ٹیکسلا کے مقام پر دنیا کی عظیم یونیورسٹی قائم ہوئی جہاں سے پانینی جیسا ماہر زبان سامنے آیا۔ قطب الدین ایبک پہلا مسلمان سلطان ہے جس نے مرکزی حکومت کا ڈھانچہ دیا جسے اس کے غلام اور داماد سلطان شمس الدین التمش نے مضبوط بنایا۔ سلطان علوم و فنون کا دلدادہ تھا دہلی کا مدرسہ ناصریہ اور قطب مینار اس کی علم دوستی کا واضح ثبوت ہیں۔
مغل سلطنت کا قیام ادبا اور اہل فن کے لیے ایک عظیم الشان عہد کی نوید لایا۔ ظہیر الدین بابر نہ صرف ایک دلیر مہم جو بلکہ ایک حرف شناس ادیب بھی تھا ، اس کااحوال نامہ” تزک بابری” ہندوستانی سماج کا آئینہ مانا جاتا ہے۔تمام مغل بادشاہ ماسوائے اورنگزیب اپنے اردگرد شاعروں، موسیقاروں اور مصوروں کو جمع رکھتے اور ان کے نان و نفقہ کا ذمہ بھی اٹھاتے۔ مغلوں کی علم دوستی اور فنون لطیفہ سے والہانہ وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ جب سلطنت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا اور دربار انگریز کے جمع کردہ مالیے پر چل رہا تھا تب بھی شعرا کو ایک خاص رتبہ حاصل رہا ۔ غالب سے عظیم شاعر کو بھی قبول عام کی سند سے قبل دربار تک رسائی حاصل کرنا پڑی۔
۱۸۵۷کے ہنگاموں کے بعد انگریز سرکار نے فارسی زبان و ادب کی بجائے اردو یا ہندوستانی کی سرپرستی کی کلکتے کا فورٹ ولیم کالج اسی کاوش کا حصہ تھا، اسی طرح پنجاب میں گورنمنٹ کالج لاہور اور اورئینٹل کالج قائم کیے گیے۔ علوم و فنون کی سرکاری سرپرستی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما رہےہیں،حکمرانوں کی ذاتی علم دوستی اپنی جگہ لیکن ادیبوں کی سرپرستی اس لیے بھی کی جاتی رہی ہے تاکہ کہیں ادیب کی زبان یا قلم سے کچھ ایسا نہ نکل جائے جس سے حکمران طبقے کی اجارہ داری کو خطرہ لاحق ہو، کہیں ریاست گریز جذبات عام آدمی تک نہ پہنچ جائیں اور کہیں اس کے دل میں شاہ کی عزت و ہیبت کم نہ ہو جائے۔ لہذا ان لوگوں کو چپ کرانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ان کے سر پر دست شفقت رکھا جائے تاکہ ان کا قلم چین لکھتا رہےاور اگر کہیں کوئی سرمد پیدا ہوجائے تو اس کا پتہ صاف کردیاجائے۔
مغل سلطنت کا قیام ادبا اور اہل فن کے لیے ایک عظیم الشان عہد کی نوید لایا۔ ظہیر الدین بابر نہ صرف ایک دلیر مہم جو بلکہ ایک حرف شناس ادیب بھی تھا ، اس کااحوال نامہ” تزک بابری” ہندوستانی سماج کا آئینہ مانا جاتا ہے۔تمام مغل بادشاہ ماسوائے اورنگزیب اپنے اردگرد شاعروں، موسیقاروں اور مصوروں کو جمع رکھتے اور ان کے نان و نفقہ کا ذمہ بھی اٹھاتے۔ مغلوں کی علم دوستی اور فنون لطیفہ سے والہانہ وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ جب سلطنت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا اور دربار انگریز کے جمع کردہ مالیے پر چل رہا تھا تب بھی شعرا کو ایک خاص رتبہ حاصل رہا ۔ غالب سے عظیم شاعر کو بھی قبول عام کی سند سے قبل دربار تک رسائی حاصل کرنا پڑی۔
۱۸۵۷کے ہنگاموں کے بعد انگریز سرکار نے فارسی زبان و ادب کی بجائے اردو یا ہندوستانی کی سرپرستی کی کلکتے کا فورٹ ولیم کالج اسی کاوش کا حصہ تھا، اسی طرح پنجاب میں گورنمنٹ کالج لاہور اور اورئینٹل کالج قائم کیے گیے۔ علوم و فنون کی سرکاری سرپرستی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما رہےہیں،حکمرانوں کی ذاتی علم دوستی اپنی جگہ لیکن ادیبوں کی سرپرستی اس لیے بھی کی جاتی رہی ہے تاکہ کہیں ادیب کی زبان یا قلم سے کچھ ایسا نہ نکل جائے جس سے حکمران طبقے کی اجارہ داری کو خطرہ لاحق ہو، کہیں ریاست گریز جذبات عام آدمی تک نہ پہنچ جائیں اور کہیں اس کے دل میں شاہ کی عزت و ہیبت کم نہ ہو جائے۔ لہذا ان لوگوں کو چپ کرانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ان کے سر پر دست شفقت رکھا جائے تاکہ ان کا قلم چین لکھتا رہےاور اگر کہیں کوئی سرمد پیدا ہوجائے تو اس کا پتہ صاف کردیاجائے۔
آج نہ دہلی دربار ہے کہ جہاں خسرو عرق ریزی کرے اور طوطی ہند کا خطاب پائے اورنہ قطب شاہی حکمران ہیں کہ موسیقی کے نورس ترتیب دیے جائیں، آج نہ شاہجہاں ہے جو فن تعمیر کا ذوق رکھتا ہو اور نہ ہی شاہ بہادر ظفر ہے جو غالب کو اپنے پہلو میں بٹھائے۔
سلطنتیں تباہ ہونے کے لیے ہی بنتی ہیں آج نہ دہلی دربار ہے کہ جہاں خسرو عرق ریزی کرے اور طوطی ہند کا خطاب پائے اورنہ قطب شاہی حکمران ہیں کہ موسیقی کے نورس ترتیب دیے جائیں، آج نہ شاہجہاں ہے جو فن تعمیر کا ذوق رکھتا ہو اور نہ ہی شاہ بہادر ظفر ہے جو غالب کو اپنے پہلو میں بٹھائے۔ تو کیا فنون مردہ ہوگئے؟ کیا ان کی پشتیبانی سے ہاتھ اٹھا لیا گیا؟ نہیں آج بھی کئی سلطنتیں قائم ہیں جو ان کی سرپرستی کیے جارہی ہیں اور جن کی بدولت آج کے ادیب اپنے ملی و شخصی اختلاف بھلا کر ایک چھت کے نیچے جمع ہوتے ہیں۔ وہ طبقہ جو ان سلطنتوں پر قابض ہے اور فنکاروں کی علم بازی سے مستفید بھی ہوتا ہے ان فنکاروں کی سرپرستی کے لیے آئے روز میلے اور تہوار منعقد کرتارہتاہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت معاشی مفادات کے حصول کے لیے آج کا فنکارمزاحمت اور انکار کی روایت کو فراموش کرچکا ہے۔ لیکن یہ سلطنتیں کیا ہیں؟ یہ چند سرمایہ داروں کے جھنڈ ہیں جو ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر اپنی ہی ساتھ گفتگو کیے جاتے ہیں اور ان کی اپنی ہی آوازیں ایک دوسرے سے ٹکرا کر ایک بے معنی بازگشت پیدا کرتی ہیں۔ عوام الناس کی حالت سے انہیں کیا سروکار یہ تو زبان بھی وہی بولتے ہیں جو اکثریت کے کانوں کے لیے غیر مانوس ہے۔
بات سادہ سی ہے فنون سرپرستی مانگتے ہیں۔ اب دلّی دربار، عادل شاہی اور نظام حیدر آباد کہاں اب تو کوک، نیس کیفے اور پراکٹر اینڈ گیمبل جیسی عظیم الشان سلطنتیں قائم ہیں اوران کے زیر اثر ادیب اور فنکارصرف اسی کو مانا جاتا ہے جو سلطنت اور اس کے کارندوں کو خوش کرے، وہ قلم آج بھی سرپرستی سے محروم ہےجو”سلاطین” کی کاسہ لیسی نہ کرسکے۔
تعارف مصنف: آعمش حسن عسکری نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے تاریخ کا مضمون پڑھا ہے اور قومی اسمبلی میں تحقیقی معاون کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے موضوعات تاریخ اور پنجابی لوک داستانیں ہیں۔
بات سادہ سی ہے فنون سرپرستی مانگتے ہیں۔ اب دلّی دربار، عادل شاہی اور نظام حیدر آباد کہاں اب تو کوک، نیس کیفے اور پراکٹر اینڈ گیمبل جیسی عظیم الشان سلطنتیں قائم ہیں اوران کے زیر اثر ادیب اور فنکارصرف اسی کو مانا جاتا ہے جو سلطنت اور اس کے کارندوں کو خوش کرے، وہ قلم آج بھی سرپرستی سے محروم ہےجو”سلاطین” کی کاسہ لیسی نہ کرسکے۔
تعارف مصنف: آعمش حسن عسکری نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے تاریخ کا مضمون پڑھا ہے اور قومی اسمبلی میں تحقیقی معاون کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے موضوعات تاریخ اور پنجابی لوک داستانیں ہیں۔
حسن بھیّا، آپ نے جن پرانے اکابر فن اور فنی شاہکاروں کا ذکر کیا، وہ کسی طور پیشہ ورانہ ترغیب سے خالی نہیں ہیں۔ پانینی کی اشٹ ادھیائے سے لے کر ایبک کے قطب مینار تک، سب شاہکاروں کی لاگت شاہی خزانوں اور مندروں کے کتابخانوں کے چندوں نے ادا کی ہیں۔ فنون اپنی اعلی شکلوں میں کبھی بھی خودرو جھاڑیوں کی طرح نہیں اگتے، انہیں کہیں نہ کہیں سے آب و دانہ ملتا ہے تو وہ پھلتے پھولتے ہیں۔ اگر آج نیس کیفے یا کوکا کولا کارپوریشن کسی علمی تحقیق یا لوک موسیقی کے کسی پراجیکٹ کی سرپرستی کر دیتے ہیں، تو اس پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ نظام دکن کے جواہر کے خزانے اور اکبر اعظم کے مخزن اب پرانی باتیں ہو چکی ہیں، آج فن تعمیر یا کسی اور فن لطیف کا کوئی اونچا برج کھڑا کے لیے آپ کو کسی ملٹی نیشنل سے اچھا چندہ ملتا ہے تو اسے سرمایہ دارانہ سازش قرار دینے کی بجائے بسم اللہ کر کے کام شروع کیجیے۔ آپ جن بھلے وقتوں کی بات کر رہے ہیں، اس میں اور آج میں صرف زمانے کا فرق ہے۔ فنون اپنی جگہ زندہ ہیں۔ پیشہ ورانہ ترغیب میں آجر اور اجیر کے رشتے بھی کم و بیش وہی ہیں۔ فن کل بھی برائے فروخت تھا اور آج بھی ہے۔ اس پر شرمسار ہونے کی بجائے اپنے ہنر کی قدر جانیے اور؛
نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز۔۔۔