احترام آدمیت ایک بنیادی اخلاقی اصول ہے۔ کسی بھی فرد کا احترام تب تک ممکن نہیں جب تک اسےاس کی مخالف آراء اور اور نقطہ نظر کے ساتھ قبول نہ کیا جائے۔ احترام آدمیت کے اصول کا تقاضا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو متعلقہ دنیاوی رشتوں کے دباو میں آئے بغیر بحیثیت انسان اپنی آراء، نظریات، فکر وعمل اور فلسفہ حیات کو اپنانے اور اس پر کاربند رہنے کا مجاز تصور کیا جائے۔ یعنی ہم میں سے ہر ماں، بہن، بیٹی، بیوی، رفیق کار، بیٹا، بھائی، شوہر ، عزیز یا دوست ، تعلق داری کے دباو سے آزاد اپنے ذاتی نقطہ نظر، فکر اور عقائد پر کاربند رہ سکے۔
شدت پسندی کی تمام صورتیں چاہے ان کا اظہار انفرادی حیثیت میں کیا جائے یا اجتماعی سطح پر، احترام آدمیت کے اصول سے ناواقفیت اور روگردانی کے باعث ہیں
صد افسوس کہ آج کے مسلم معاشرے میں شدت پسندی اور بنیاد پرستی نقطہ عروج کو پہنچ چکی ہے۔ انتہا پسندی کا یہ رحجان اختلاف رائے کے لیے پائی جانے والی عدم برداشت کی وجہ سے ہے۔ اگر ہم یہ باور کرسکیں کہ ہر فرد ہم سے مختلف آراء اور عقائد رکھنے اور ان کا اظہار کرنے کا حقدار ہےتو ہمارے رویوں میں کبھی بھی تلخی پیدا نہ ہو۔ بادامی باغ میں عیسائی بستی سمیت ایک سو اٹھہتر گھر جلانے کا واقعہ ہو ،کوٹ رادھا کشن میں عیسائی جوڑے کو زندہ جلانے کا سانحہ ہو یاصفورا چورنگی پر اسماعیلی برادری کا قتل عام۔۔۔۔ یہ اور ایسے تمام واقعات اس لیے وقوع پذیر نہیں ہوئے کہ اقلیت اور اکثریت کے خدا الگ الگ ہیں بلکہ یہ واقعات اس لیے وقوع پذیر ہوئے کیوں کہ ہم مخالف نقطہ نظر برداشت کرنے کے روادار نہیں۔ شدت پسندی کی تمام صورتیں چاہے ان کا اظہار انفرادی حیثیت میں کیا جائے یا اجتماعی سطح پر، احترام آدمیت کے اصول سے ناواقفیت اور روگردانی کے باعث ہیں جو فی نفسہ ذہنی پسماندگی کا ادنیٰ ترین درجہ ہے۔
مغرب کی علمی جستجو کے برعکس مسلم فکر بہت سے مغالطوں کا شکار ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں کوئی معرکہ نہ بھی مار سکے تو جنت میں ضرور پہنچ جائیں گے
بدقسمتی سے یہ ذہنی پسماندگی محض احترام آدمیت سے عدم واقفیت کی اخلاقی سطح تک ہی محدود نہیں بلکہ تعصب اور جہالت کی نظریاتی اور علمی سطح تک پھیلی ہوئی ہے۔ آج کا مسلمان اپنی اسی ذہنی پسماندگی کی وجہ سے جہاں علمی میدان میں بہت پیچھے رہ گیا ہے وہیں پوری دنیا کی جانب سے کی جانے والی شدید تنقید کا بھی شکار ہے۔ مسلم معاشروں میں عموماً دنیا کو مسلم اور غیر مسلم دھڑوں میں منقسم سمجھا جاتا ہے۔ غیر مسلم دنیا جو فکری، علمی، سائنسی، معاشی اورسیاسی ترقی کے لیے کوشاں ہے اور مسلم دنیا جو باقی دنیا کی علمی پیش رفت سے قطع نظر، اپنے گریباں میں جھانکے بغیر اس پستی اور پسماندگی کے الہامی جواز تراشنے اور ان کا دفاع کرنے میں مصروف ہے۔
صد حیف کے مسلم دنیا علمی، فکری اور سائنسی ترقی سے لاتعلق نظر آتی ہے۔ خلائی جہاز نیو ہورائزنز کا پلوٹو کی سطح پر نائٹرجن کے گلیشیئر دریافت کرنا ہمارے لیے اہم خبر نہیں۔ سائگنس نامی کہکشاں میں زمین سے مشابہ سیارے کیپلر 452 کی دریافت بھی ہمارے لیے باعث دلچسپی نہیں، اگر دنیا ملیریا کی ویکسین تیار کرنے لے قریب پہنچ چکی ہے تو کیا ہوا؟؟ڈنمارک اورجرمنی کے مابین سفر کم کرنے کے لیے سمندر کی سطح سے نیچے سرنگ بنانے کا منصوبہ ہمارے لیے مکمل طور پر غیراہم ہے۔ اہل مغرب کی دریافتیں اور ایجادات ہمارے لیے کسی اہمیت کی حامل نہیں۔ یہ “بے کار” علمی مشاغٖل مغرب کو ہی مبارک ہوں۔
مغرب کی علمی جستجو کے برعکس مسلم فکر بہت سے مغالطوں کا شکار ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں کوئی معرکہ نہ بھی مار سکے تو جنت میں ضرور پہنچ جائیں گے۔ تاہم یہ سمجھنا اتنا دشوار نہیں کہ دنیا کی تمام ترترقی کی بنیاد فکری ترقی ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کے لیے ایک مثبت شناخت کے حصول کا واحد راستہ مسلم فکر کا ارتقاء ہے ۔ اس فکری ارتقاء کے لیے ضروری ہے کہ اختلاف رائے کو رد کرنے کی بجائے ہم اپنی توجہ معاشرے میں فرد کے آزاد اور فعال کردار پر مرکوز کریں۔
صد حیف کے مسلم دنیا علمی، فکری اور سائنسی ترقی سے لاتعلق نظر آتی ہے۔ خلائی جہاز نیو ہورائزنز کا پلوٹو کی سطح پر نائٹرجن کے گلیشیئر دریافت کرنا ہمارے لیے اہم خبر نہیں۔ سائگنس نامی کہکشاں میں زمین سے مشابہ سیارے کیپلر 452 کی دریافت بھی ہمارے لیے باعث دلچسپی نہیں، اگر دنیا ملیریا کی ویکسین تیار کرنے لے قریب پہنچ چکی ہے تو کیا ہوا؟؟ڈنمارک اورجرمنی کے مابین سفر کم کرنے کے لیے سمندر کی سطح سے نیچے سرنگ بنانے کا منصوبہ ہمارے لیے مکمل طور پر غیراہم ہے۔ اہل مغرب کی دریافتیں اور ایجادات ہمارے لیے کسی اہمیت کی حامل نہیں۔ یہ “بے کار” علمی مشاغٖل مغرب کو ہی مبارک ہوں۔
مغرب کی علمی جستجو کے برعکس مسلم فکر بہت سے مغالطوں کا شکار ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں کوئی معرکہ نہ بھی مار سکے تو جنت میں ضرور پہنچ جائیں گے۔ تاہم یہ سمجھنا اتنا دشوار نہیں کہ دنیا کی تمام ترترقی کی بنیاد فکری ترقی ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کے لیے ایک مثبت شناخت کے حصول کا واحد راستہ مسلم فکر کا ارتقاء ہے ۔ اس فکری ارتقاء کے لیے ضروری ہے کہ اختلاف رائے کو رد کرنے کی بجائے ہم اپنی توجہ معاشرے میں فرد کے آزاد اور فعال کردار پر مرکوز کریں۔