منٹو نے کہا تھا ،” ہندوستان آزاد ہو گیا تھا۔ پاکستان عالم وجود میں آتے ہی آزاد ہو گیا تھا لیکن انسان دونوں مملکتوں میں غلام تھا۔ تعصب کا غلام۔۔۔مذہبی جنون کا غلام۔۔۔حیوانیت و بربریت کا غلام” اس برس کے یوم ِپاکستان کو دیکھ کر یہی محسوس ہوا کہ آزادی کے 66 سال بعد بھی سرحد کے دونوں طرف بسنے والے عوام ابھی تک تعصب، مذہبی جنون اور بربریت کے غلام ہیں۔
23مارچ کو جماعۃ الدعوۃ کی سربراہی میں دیگر مذہبی جماعتوں نے ملک بھر میں احیائے نظریہ پاکستان مارچ کا اہتمام کیا۔ 23مارچ کا مقصد پاکستانیوں پر دراصل یہ واضح کرنا تھا کہ یوم پاکستان ہے کیا اور اس کا مقصد کیا ہے۔ حافظ سعید اور ان کے ہم خیالوں کے نزدیک اس دن کے منانے کا مقصد اس امر کی توثیق و تصدیق ہے کہ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا۔ اس نظریہ کی تعریف انہوں نے کچھ ان الفاظ میں کی ہے:
‘ہندو اور مسلم دو مختلف بلکہ متضاد کلچر ہیں۔ دونوں قوموں کی معاشرت، تہذیب و تمدن، زبان، رسم الخط، مذہب، روایات ، کھانے پینے، شادی بیاہ، تقریبات اور عبادت کے طریقے غرض ان دونوں میں کوئی ایک چیز بھی مشترک نہیں۔’
23مارچ کو جماعۃ الدعوۃ کی سربراہی میں دیگر مذہبی جماعتوں نے ملک بھر میں احیائے نظریہ پاکستان مارچ کا اہتمام کیا۔ 23مارچ کا مقصد پاکستانیوں پر دراصل یہ واضح کرنا تھا کہ یوم پاکستان ہے کیا اور اس کا مقصد کیا ہے۔ حافظ سعید اور ان کے ہم خیالوں کے نزدیک اس دن کے منانے کا مقصد اس امر کی توثیق و تصدیق ہے کہ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا۔ اس نظریہ کی تعریف انہوں نے کچھ ان الفاظ میں کی ہے:
‘ہندو اور مسلم دو مختلف بلکہ متضاد کلچر ہیں۔ دونوں قوموں کی معاشرت، تہذیب و تمدن، زبان، رسم الخط، مذہب، روایات ، کھانے پینے، شادی بیاہ، تقریبات اور عبادت کے طریقے غرض ان دونوں میں کوئی ایک چیز بھی مشترک نہیں۔’
اگر ہم جماعۃ الدعوۃ کی وضع کردہ دو قومی نظریہ کو درست سمجھ لیں تو پھر پاکستان کا اقوام عالم سے کسی صورت بھی اس کا میل جول نہیں ہو سکتا کیونکہ کسی بھی اعتبار سے دنیا کا کوئی بھی ملک ہم جیسا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ تو پھر کیا ہم مذہبی اختلاف کی بنیاد پر تما م ممالک سے دشمنی پال لیں؟ ان سے قطع تعلقات کر دیں؟
اگر اس تعریف کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کا دیگر اقوام سے موازنہ کیا جائے تو کچھ ایسے ہی حقائق منظر عام پر آئیں گے۔ پاکستان کا (بقول وزیر خزانہ اسحاق ڈار)ایک قریبی دوست سعودی عرب جبکہ دوسرا چین ہے۔ ہو سکتا ہے حافظ سعید صاحب کو چین سے دوستی پر اعتراض ہو تاہم سعودی عرب سے ان کی وابستگی اور الفت پر کسی کو شک نہیں۔ مذہب کو قومیت کی بنیاد قرار دینے والے افراد شاید مسلم ممالک میں پائے جانے ثقافتی تنوع سے ناواقف ہیں ۔دوقومی نظریہ کی تعریف کے مطابق سعودی عرب سمیت کوئی سے دو مسلم ممالک ایک سی ثقافت کے حامل نہیں۔سعودی عرب اور پاکستان میں سوائے مذہب کوئی قدر مشترک نہیں۔ دونوں قوموں کی معاشرت، تہذیب و تمدن، زبان ، رسم الخط ، روایات ، پکوان ، شادی بیاہ، تقریبات حتیٰ کہ عبادت کا طریقہ بھی مختلف ہے۔ ہم اردو یا دیگر علاقائی زبانیں بولتے ہیں جبکہ وہ عربی میں بات کرتے ہیں، ہم سندھ طاس کی تہذیب سے جڑے ہیں جبکہ عرب ممالک کا اپنا منفرد کلچر و ثقافت ہے۔ پاکستان کی اکثریت مسلمان اور قرآن کریم پڑھتی ہے مگر پھر بھی عربی زبان سے نابلد ہے۔ ہمارے ہاں کھجور اور زیتون کی اتنی فراوانی نہیں جبکہ سعودی عرب میں سنگترہ، آم اور لیموں ناپید ہیں۔ یہ دریاؤں کی سرزمین اور میدانی علاقہ ہے جبکہ سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کے تمام مسلمان ممالک صحراؤں کی سرزمین ہیں۔ ہماری علاقائی تقریبات ماسوائے عیدین سعودی عرب سے قطعاََمختلف ہیں حتیٰ کہ عید منانے کا طریقہ بھی یکسر الگ ہے۔
اب بات کرتے ہیں ہمسایہ ملک اور ہر دکھ سکھ میں پاکستان کے سانجھے عوامی جمہوریہ چین کی۔پاکستانی اسلام جبکہ چینی بدھ مت کے پیروکار یا "خدا” کے منکر ہیں۔ کرہ ارض پر کوئی ایسا جاندار نہیں جو وہ نہ کھاتے ہوں۔ ہماری اور ان کی زبان او رسم الخط میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ معاشرت، تمدن، تہذیب، ثقافت، تہوار غرض یہ کہ کوئی قدر مشترک نہیں مگر اس کے باوجود چین ، پاکستان کا برادر ملک کہلاتا ہے۔ ہمارے قد کاٹھ ملتے ہیں، رنگت اور نہ ہی باڈی لینگوئج ۔ اس کے باوجود ہمیں جب بھی مدد کی ضرورت پڑتی ہے تو تمام پاکستانیوں کی امیدوں کا محور و مرکز چین ہوتا ہے۔
اگر ہم جماعۃ الدعوۃ کی وضع کردہ دو قومی نظریہ کو درست سمجھ لیں تو پھر پاکستان کا اقوام عالم سے کسی صورت بھی اس کا میل جول نہیں ہو سکتا کیونکہ کسی بھی اعتبار سے دنیا کا کوئی بھی ملک ہم جیسا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ تو پھر کیا ہم مذہبی اختلاف کی بنیاد پر تما م ممالک سے دشمنی پال لیں؟ ان سے قطع تعلقات کر دیں؟ پاکستانی عوام کو ان سے متنفر کر دیں؟ یا پھر متنوع خیالات ، سماج اور روایات کے ہر رنگ کی چاشنی کا ادراک کرتے اور اسے قدرت کا حسن سمجھتے ہوئے قبول کریں؟بلکہ شاید پاکستان کے اندر بھی اس قدر ثقافتی، مذہبی اور مسلکی تنوع ہے کہ اسے "ایک قوم ” قرار دینا ممکن نہیں۔
اب بات کرتے ہیں ہمسایہ ملک اور ہر دکھ سکھ میں پاکستان کے سانجھے عوامی جمہوریہ چین کی۔پاکستانی اسلام جبکہ چینی بدھ مت کے پیروکار یا "خدا” کے منکر ہیں۔ کرہ ارض پر کوئی ایسا جاندار نہیں جو وہ نہ کھاتے ہوں۔ ہماری اور ان کی زبان او رسم الخط میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ معاشرت، تمدن، تہذیب، ثقافت، تہوار غرض یہ کہ کوئی قدر مشترک نہیں مگر اس کے باوجود چین ، پاکستان کا برادر ملک کہلاتا ہے۔ ہمارے قد کاٹھ ملتے ہیں، رنگت اور نہ ہی باڈی لینگوئج ۔ اس کے باوجود ہمیں جب بھی مدد کی ضرورت پڑتی ہے تو تمام پاکستانیوں کی امیدوں کا محور و مرکز چین ہوتا ہے۔
اگر ہم جماعۃ الدعوۃ کی وضع کردہ دو قومی نظریہ کو درست سمجھ لیں تو پھر پاکستان کا اقوام عالم سے کسی صورت بھی اس کا میل جول نہیں ہو سکتا کیونکہ کسی بھی اعتبار سے دنیا کا کوئی بھی ملک ہم جیسا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ تو پھر کیا ہم مذہبی اختلاف کی بنیاد پر تما م ممالک سے دشمنی پال لیں؟ ان سے قطع تعلقات کر دیں؟ پاکستانی عوام کو ان سے متنفر کر دیں؟ یا پھر متنوع خیالات ، سماج اور روایات کے ہر رنگ کی چاشنی کا ادراک کرتے اور اسے قدرت کا حسن سمجھتے ہوئے قبول کریں؟بلکہ شاید پاکستان کے اندر بھی اس قدر ثقافتی، مذہبی اور مسلکی تنوع ہے کہ اسے "ایک قوم ” قرار دینا ممکن نہیں۔
اگر حقیقتاََ احیائے نظریہ پاکستان ہمارا مقصد و منشاء ہے تو پھر ہمیں ایسے نظریہ کی ضرورت ہے جواس قوم کو سیاسی شعور سے آشنا کرے، ایسا شعور جو ہمیں اپنے ہمسائیوں سے بہتر تعلقات اور اقوام عالم میں ایک عزت دار ملک کی حیثیت دلائے۔ ہمیں ایسے نظریہ کی ضرورت ہے جو اس قوم کی معاشی خوشحالی کا پیش خیمہ ہو، عوام کی حاکمیت کا علمبردار ہو۔
گزارش ہے کہ جب دنیا وجود میں آئی تھی تو اس کا نقشہ کچھ اور تھااور آج کی دنیا ماضی کے تمام ادوار سے یکسر مختلف ہے ۔ آج کی دنیا کے تمام ممالک جغرافیائی، لسانی ، سماجی و معاشی اعتبار سے اپنی حد بندیاں کر چکے اور کر رہے ہیں۔انسانوں کے تہذیبی ارتقاء کے موجودہ مرحلے پرمعاشرے مختلف سیاسی شناخت اور مفادات کی بنا پر الگ ریاستوں میں تو بٹ سکتے ہیں مگر تمدن، تہذیب یا عقائد کو بنیاد بنا کر نفرت کی آبیاری نہیں کی جا سکتی۔ ہم ہندوستان سے صرف اس لئے نفرت نہیں کر سکتے کہ وہاں کی اکثریت ہندو جبکہ ہمارے ہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ قرارداد ِلاہور بعد ازاں قرارداد پاکستان کا مقصد کیا تھا، جمعیت علمائے ہند یا دارلعلوم دیو بند نے پاکستان اور جناح کی مخالفت کیوں کی، سب سے پہلے نظریہ پاکستان کس نے دیا، جناح اسلامی ریاست چاہتے تھے یا سیکولر، اب ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہتے ہوئے اپنے ہمسائیوں سے ہمیں کیسے تعلقات رکھنے ہیں۔
اگر حقیقتاََ احیائے نظریہ پاکستان ہمارا مقصد و منشاء ہے تو پھر ہمیں ایسے نظریہ کی ضرورت ہے جواس قوم کو سیاسی شعور سے آشنا کرے، ایسا شعور جو ہمیں اپنے ہمسائیوں سے بہتر تعلقات اور اقوام عالم میں ایک عزت دار ملک کی حیثیت دلائے۔ ہمیں ایسے نظریہ کی ضرورت ہے جو اس قوم کی معاشی خوشحالی کا پیش خیمہ ہو، عوام کی حاکمیت کا علمبردار ہو۔ ہمیں نفرت و کینہ سے پاک پاکستانی بنائے اور یہ قوم علم، اقتصادی آسودگی، امن پسندی، رواداری، محنت و ایمانداری کا ایسا نمونہ بنے جو اقوام عالم کے لئے ایک عمدہ مثال بننانے کا اہل ہو۔پاکستان کے وفاق میں شامل قومی اکائیوں کی ثقافتی رنگارنگی کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں قومی سیاسی دھارے میں شامل ہونے کا موقع دینا ہی اب قومیت کی بنیاد ہونی چاہئے۔ وسائل پر ملکیت اور استفادہ کا حق تسلیم کرتے ہوئے ایک قوم کے نعرے کی بنیاد پر چھوٹے صوبوں کے استحصال کو روکنا ہوگا۔پاکستان کو جنگی جنون اور ہتھیاروں کی لاحاصل دوڑ کے بجائے صحت مند مسابقت اور اپنے ہمسائیوں سے بہتر تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد بنانا ہوگا۔ ہمیں ایسے نظریہ کی ضرورت ہے جو اس قوم کی معاشی خوشحالی کا پیش خیمہ ہو، یہاں کے عوام کی حاکمیت کا علمبردار ہو۔ ہمیں نفرت و کینہ سے پاک پاکستانی بنائے اور یہ قوم علم، معاشی آسودگی، امن پسندی، رواداری اور محنت و ایمانداری کا ایسا نمونہ بنے جو اقوام عالم کے لئے ایک عمدہ مثال بن جائے۔
اگر حقیقتاََ احیائے نظریہ پاکستان ہمارا مقصد و منشاء ہے تو پھر ہمیں ایسے نظریہ کی ضرورت ہے جواس قوم کو سیاسی شعور سے آشنا کرے، ایسا شعور جو ہمیں اپنے ہمسائیوں سے بہتر تعلقات اور اقوام عالم میں ایک عزت دار ملک کی حیثیت دلائے۔ ہمیں ایسے نظریہ کی ضرورت ہے جو اس قوم کی معاشی خوشحالی کا پیش خیمہ ہو، عوام کی حاکمیت کا علمبردار ہو۔ ہمیں نفرت و کینہ سے پاک پاکستانی بنائے اور یہ قوم علم، اقتصادی آسودگی، امن پسندی، رواداری، محنت و ایمانداری کا ایسا نمونہ بنے جو اقوام عالم کے لئے ایک عمدہ مثال بننانے کا اہل ہو۔پاکستان کے وفاق میں شامل قومی اکائیوں کی ثقافتی رنگارنگی کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں قومی سیاسی دھارے میں شامل ہونے کا موقع دینا ہی اب قومیت کی بنیاد ہونی چاہئے۔ وسائل پر ملکیت اور استفادہ کا حق تسلیم کرتے ہوئے ایک قوم کے نعرے کی بنیاد پر چھوٹے صوبوں کے استحصال کو روکنا ہوگا۔پاکستان کو جنگی جنون اور ہتھیاروں کی لاحاصل دوڑ کے بجائے صحت مند مسابقت اور اپنے ہمسائیوں سے بہتر تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد بنانا ہوگا۔ ہمیں ایسے نظریہ کی ضرورت ہے جو اس قوم کی معاشی خوشحالی کا پیش خیمہ ہو، یہاں کے عوام کی حاکمیت کا علمبردار ہو۔ ہمیں نفرت و کینہ سے پاک پاکستانی بنائے اور یہ قوم علم، معاشی آسودگی، امن پسندی، رواداری اور محنت و ایمانداری کا ایسا نمونہ بنے جو اقوام عالم کے لئے ایک عمدہ مثال بن جائے۔
Leave a Reply