Laaltain

احتجاج کا حق اور سڑکوں کی سیاست

19 اگست، 2014
یورپ میں شخصی حکم رانی کے تحت قائم سلطنتوں میں بادشاہ اوراس کے حواری جاگیرداروں کی اقتدار پر قائم اجارہ داری کے خلاف ابھرتے ہوئے تاجر ، صنعت کار اور دانشور طبقہ کی جانب سے پر ہجوم عوامی تحریکوں کے ذریعہ انقلاب برپا کرنےکی کوششوں کے باعث جس جمہوری طریقہ انتخاب و انتقال اقتدار کا آغاز ہوا ،وہ نوآبادیاتی دور میں مقبوضہ علاقوں تک بھی پہنچا ۔ یورپ میں تشکیل پانے والے جمہوری نظام کی بنیاد انقلاب فرانس اور اشتمالی تحریکوں کی عوامی طاقت کے اس خوف پربھی رکھی گئی ہے جو کسی بھی ریاست کو انتشار کا شکار کرتے ہوئے مختلف طبقات کے مفادات اور ریاستی اداروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا نے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ جمہوری اداروں کے قیام کی اساس عوامی اقتداراعلیٰ، بنیادی حقوق اور آزادیوں تک یکساں رسائی اور ریاست، حکومت، معاشرے اور فرد کے مابین طاقت اور اقتدار کی شراکت کے عمرانی معاہدوں پر رکھی گئی تھی تاکہ متشدد انقلابات اور ہجوم کے ہاتھوں تبدیلی کا راستہ روکا جا سکے ۔ ریاست کی سطح پر تشکیل پانے والے عمرانی معاہدے جہاں حکومت کو ریاستی طاقت استعمال کرنے کا محدود حق دیتے ہیں وہیں عوام یا مختلف طبقات کو احتجاج کا جمہوری حق بھی دیتے ہیں۔ یورپی جمہوری نظام کا ارتقاء بتدریج ریاست میں بسنے والے مختلف گروہوں کو سیاسی نظام اور ریاستی اداروں میں نمائندگی اور شراکت دینے کا بتدریج عمل تھا جس کے تحت اقلیت اور اکثریت کے مابین منصفانہ توازن کے قیام کی مختلف جمہوری صورتیں رائج ہوئیں۔
سڑکوں کی سیاست کے ذریعہ حکومتوں کی تبدیلی کی کوششوں کے دوران یہ نقطہ ہمیشہ فراموش کیا گیا ہے کہ احتجاج کرتے ہجوم سے تمام تر ہمدردی کے باوجود مظاہرین کے مطالبات صرف احتجاج کی شدت ، مظاہرے میں شریک افراد کی تعداد اور عوامی حمایت کی بنیاد پر جائز، آئینی اور قانونی تسلیم نہیں کئے جا سکتے ۔
نوآبادیاتی مقبوضہ جات خصوصاً ہندوستان میں یورپی اقوام کے ہاتھوں پہنچنے والے جمہوری نظام کے تحت شروع ہونے والے محدود سیاسی عمل نے جلد ہی عوامی سطح پراقتدار میں شمولیت اور بعد ازاں مکمل آزادی کے مطالبے کی شکل اختیار کر لی۔ ہندوستانیوں نے ریاست پر قابض استعماری ممالک کے قبضہ کے خلاف بیسویں صدی میں اقتدار کی مقامی افراد کو منتقلی اور خودمختار آزاد ریاستوں کے قیام کے لئے جو تحریکیں چلائیں ان میں ریاست استعماری قوتوں کی نمائندہ تصور کی گئی اور ریاستی اداروں کے خلاف سول نافرمانی سمیت احتجاج کرنے کے تمام جمہوری اور غیر جمہوری طریقےاستعمال کئے گئے۔ آزادی کی ان تحریکوں میں ریاست اور اس کے اداروں کو دشمن سمجھنے کی سوچ کسی حد تک آج کے پاکستانی انقلابیوں اور علیحدگی پسندوں میں بھی نظر آتی ہے، جو ریاست یا کم سے کم حکومت کو جبر اور استحصال کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں احتجاج کے بنیادی انسانی حق کو ریاست کے اداروں کے خلاف من پسند نتائج کے حصول کے لئے استعمال کرنے کی بیسیوں مثالیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ آج بھی بیشتر سیاسی جماعتیں اور فشاری گروہ ریاستی اداروں جیسےپارلیمان، پولیس اورعدالتوں کو ظلم، جبر اور استحصال کا نمائندہ سمجھتے ہوئےان کے خلاف متشدد احتجاج کو نہ صرف جائز سمجھتے ہیں بلکہ اسے اپنا جمہوری حق تصور کرتے ہیں۔ اس تاثر کی ایک اہم وجہ فوجی آمریتوں اور نوے کی دہائی کی جمہوری حکومتوں کے خلاف چلنے والی تحریکوں کے دوران فوجی اور سول حکمرانوں کی طرف سے پولیس اور عدالتوں کو اپنے اقتدار کے تحفظ اور احتجاج کو دبانے کے لئے استعمال کیا جا نا ہے۔ایک اور اہم وجہ ریاست اور حکومت کی جانب سے احتجاج کرنے والوں سے معاملات طے کرنے کی اہلیت کا نہ ہونا ہے۔ ریاستی سطح پر بھی احتجاجی اور مزاحمتی تحریکوں کو نوآبادیاتی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے اور ان کے خلاف طاقت کے استعمال کو ریاستی سلامتی کے لئے جائز سمجھا جاتا ہے؛جیسےایم آرڈی کی تحریک ، بلوچ مزاحمتی تحریک اور عدلیہ بحالی کی وکلاء تحریک،جن کے دوران حکومتوں کی جانب سے احتجاج اور مزاحمت کرنے والوں کے ساتھ معاملات کو جمہوری طریقوں سے حل کرنے کی صلاحیت اور اہلیت نہ ہونے کے باعث ریاستی طاقت کے استعمال کو جائز سمجھ کر کارکنوں کی گرفتاری سمیت ہر قسم کے سیاسی و غیر سیاسی حربے جائز سمجھے گئے ہیں ۔ ریاست کی جانب سے جمہوری اور آئینی احتجاج کو طاقت کے استعمال سے روکنے کی وجہ سے ریاست ، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف متشدد عوامی تحریکوں کے جواز کے لئے وہی دلائل استعمال کئے گئے ہیں جو نوآبادیاتی استعمار سے آزادی کے وقت برطانوی تسلط سے آزادی کے لئے برتے گئے تھے۔ احتجاجی مظاہروں کو پر تشدد بنانے کی اہم وجہ حکومت کی جانب سے پسماندہ طبقات کے مسائل کے حل کے لئے ریاستی وسائل کو استعمال کرنے میں مسلسل ناکامی اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے تشدد اور توڑ پھوڑ کو نمایاں کوریج دینا ہے۔ پاکستان میں حکومتیں احتجاج کو ریاستی طاقت سے دبانے کی کوشش کرتی ہیں جس سے مظاہرین مشتعل ہوتے ہیں اور اس اشتعال کی ترویج براہ راست کوریج کے ذریعہ گھر گھر کی جاتی ہے۔
حکومت یا ریاست سے ناراض گروہوں کا مطالبات کی عدم تکمیل پر حکومت کو دباو میں لانے کے لئے تشدد اور توڑ پھوڑ کرنا اس بنیادی جمہوری فلسفہ کے ہی خلاف ہے جس کے تحت سیاسی گروہوں اور جماعتوں کو احتجاج اور اختلاف رائے کا حق حاصل ہے۔ منتخب حکومتوں کی تبدیلی کے لئےمسلح بغاوتیں، انقلابی تحریکیں ،سڑکوں کی سیاست اور دھرنے انتقال اقتدار کے اس پورے نظام فکرکی نفی کرتے ہیں جس کے تحت پرامن اور جمہوری طریقوں سے عوامی نمائندگی اور رائے دہندگی کے تحت حکومتیں وجود میں آتی ہیں۔ پرامن احتجاج کے حق کا غلط استعمال نہ صرف ریاست کے لئے طاقت کے استعمال کاجواز بنتا ہے بلکہ دیگر شہریوں، گروہوں اور جماعتوں کے بنیادی حقوق کو متاثر کرنے کا بھی باعث ہے۔
حکومت گرانے اور بنانے کے لئے سڑکوں کی سیاست پاکستان کے لئے نئی نہیں،نوے کی دہائی میں مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی دونوں ایک دوسرے کی منتخب حکومتوں کے خلاف سڑکوں کی سیاست کرتی رہی ہیں۔ سڑکوں کی سیاست اور احتجاجی مظاہروں کے ذریعہ حکومتوں کی تبدیلی کے پیچھے نہ صرف غیر جمہوری سیاسی اقدار تھیں بلکہ پس پردہ وردی اور بوٹوں کی دھمک بھی تھی ۔ منتخب حکومتوں کو اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے ہٹانے کی غیر جمہوری کوشش کے تحت ایسے حالات کا قیام جس میں فوج کو مداخلت کا موقع ملے پاکستان کی جمہوری تاریخ میں سیاسی جماعتوں اور موجودہ قیادت کے دامن کا سب سے بدنما داغ ہے۔ سڑکوں کی سیاست کے ذریعہ حکومتوں کی تبدیلی کی کوششوں کے دوران یہ نقطہ ہمیشہ فراموش کیا گیا ہے کہ احتجاج کرتے ہجوم سے تمام تر ہمدردی کے باوجود مظاہرین کے مطالبات صرف احتجاج کی شدت ، مظاہرے میں شریک افراد کی تعداد اور عوامی حمایت کی بنیاد پر جائز، آئینی اور قانونی تسلیم نہیں کئے جا سکتے ۔ مظاہرین کی جانب سے پیش کئے مطالبات بیشتر صورتوں میں نہ تو پوری قوم کی اور نہ ہی اس کی اکثریت کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں، بلکہ عوامی طاقت کی حامل جماعتوں، طبقات اور گروہوں سے مخصوص ہوتے ہیں۔
موجودہ حکومت کے خلاف جاری تحریک انصاف کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات اور احتجاجی تحریک سے پیدا ہونے والا سیاسی بحران تحریک انصاف سمیت تمام پارلیمانی جماعتوں کی شمولیت سے تشکیل پانے والے ایک اور میثاق جمہوریت کا متقاضی ہے ، تاکہ موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر سکے اور آئندہ انتخابات میں پرامن انتقال اقتدار کو یقینی بنایا جا سکے۔
مظاہرین کی جانب سے اشتعال انگیزی اور ریاستی اداروں کی جانب سے طاقت کے استعمال کے درمیان حد فاصل کہاں کھینچی جائے گی اس کا دارومدار ہمیشہ کسی ریاست میں جمہوری اداروں کی مضبوطی اور تسلسل پر ہے۔جمہوری اقدار اور اداروں کی موجودگی میں سیاسی نوعیت کے مسائل تشدد اور توڑ پھوڑ کے بغیر بھی حل کرنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ تاہم انتخابات 2013کے دوران مبینہ دھاندلیوں کے حوالے سے مستند ثبوتوں کی عدم فراہمی کے باوجود سیاسی نظام میں انتخابی شکایات نپٹانے کی اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف کو پورے نظام کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرنے کے جواز ملا ہے۔ تحریک انصاف کا آزادی مارچ اور پاکستان عوامی تحریک کا انقلاب مارچ احتجاج کے جمہوری حق کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کی نمائندہ مثال بن چکے ہیں۔
موجودہ سیاسی بحران کے دوران پارلیمان کا غیر موثر ہونا اور نظام میں احتجاج کرنے والوں کو انصاف فراہم کرنے میں حکومت اور حزب مخالف دونوں کی سیاسی اہلیت پر سوالیہ نشان ہے۔ آئینی مسائل کا پارلیمان کی بجائے سڑکوں پر عوامی طاقت کے مظاہروں سے حل کیا جانا 2009 میں عدلیہ بحالی تحریک کے دوران کئے جانے والے احتجاجی مظاہروں کی طرح، پارلیمانی جماعتوں کی جانب سے جمہوری فراخدلی ظاہر نہ کرنے کی نشاندہی کرتا ہے۔ حکومت تبدیل کرنے، انتخابی اصلاحات کرنے، نظام بدلنے سمیت تمام مسائل پارلیمان میں حل کئے جانے چاہئیں تاہم ان مسائل کو ذرائع ابلاغ اور عوامی طاقت کے مظاہروں سے حل کیا جانا اس وقت جمہوری نظام کے مستقبل کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔2006 میں سابق آمر پرویز مشرف کے دور حکومت میں جمہوریت کی بحالی کے لئے کیا جانے والا میثاق جمہوریت پاکستانی سیاست کا درخشاں باب ہے جس کے تحت نہ صرف ایک فوجی آمر سے اقتدار جمہوری حکومت کو منتقل ہوا بلکہ پہلی بار ایک جماعت اپنی حکومت کی مدت مکمل کرنے میں کامیاب ہوئی۔2013 کے انتخابات کے بعد جہاں یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ جمہوریت مستحکم ہو چکی ہے اور سول ملٹری تعلقات میں سول برتری بھی قائم ہونے کو ہے، تب صرف ایک برس تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے لامگ مارچ کے باعث جمہوری اداروں کی کمزور بنیادیں مزید کم زور ہو گئی ہیں۔موجودہ حکومت کے خلاف جاری تحریک انصاف کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات اور احتجاجی تحریک سے پیدا ہونے والا سیاسی بحران تحریک انصاف سمیت تمام پارلیمانی جماعتوں کی شمولیت سے تشکیل پانے والے ایک اور میثاق جمہوریت کا متقاضی ہے ، تاکہ موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر سکے اور آئندہ انتخابات میں پرامن انتقال اقتدار کو یقینی بنایا جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *