اجنبی مٹی میں
کشادہ دلی اور انتظار کی مہک ہوتی ہے
دیکھی ہوئی زمینوں کی دھول اور مبہم مانوسیت
آوازیں بڑھتی ہیں
ہمارے کپڑوں سے لپٹ جانے کو
دریچے، آنکھیں بن جاتے ہیں
ایک اجنبی باس
الوہی سرشاری سے
ہمارے مساموں میں اتر جانے کو بے چین ہو جاتی ہے
اجنبی جگہوں کو ہم یوں دیکھتے ہیں
جیسے ہمارے حافظے میں ان کے خواب دبے ہوں
جیسے مکانوں سے اٹھتے دھویں کے پاس کہیں
ہمارے لیے ضیافت کا اہتمام ہو
ہر جانب دوازے کھلے ہوں
جن میں ہم داخل نہیں ہو پاتے
اجنبی جگہیں سب سے زیادہ مناسب ہوتی ہیں
آنسو بہانے اور یاد کرنے کو
انھیں ، جو سانس کی طرح ساتھ رہے
اور پتھر کی طرح اجنبی ہو گئے …
بانہیں پھیلاے بلاتی رہتی ہیں یہ جگہیں
فراق کے گیتوں سے لبریز ، ہواؤں کی خنکی بن کر
اور ہم ..اپنے ارد گرد کے شور میں سن نہیں پاتے
خود اٹھائی ہوئی دیواروں سے کبھی نکل نہیں پاتے
اور ایک روز
اسی لا تعلق زمین میں خاموش کر دیے جاتے ہیں !