Laaltain

ابابیل کی مہم

28 فروری, 2016
Picture of اسد فاطمی

اسد فاطمی

ریگ مال سلسلے کی بقیہ کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

علماء کی یہ مجلس ثقلی مابعدالطبعیات پر اب تک حاصل کیا گیا تمام علمی ورثہ کھنگال چکی ہے اور چند ہزار جدول، نقشے اور خاکے منتخب کیے جا چکے ہیں تاکہ اس نئے مسئلے کا کوئی حل ڈھونڈا جا سکے۔ حاضرینِ مجلس کے غیر معمولی اضطراب کی وجہ یہ ہے کہ اس بار معاملہ کرۂ ارض پر باقی رہ گئی انسانی تہذیب کے تاریخی شہر مکہ کو بچانے کا ہے۔

 

قیمتی دھاتوں اور معدنیات کی کان کنی کے سبب خوشحالی کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی یہ قوم، ہماری کہکشاں صراط اللبن کی ایک بسیط شہابی پٹی پر معلق نخلستان بنا کر ان میں آباد ہے۔ ان کی روز افزوں معیشت کی دوسری بڑی وجہ ابتدائی زمینی ماحول میں کاشت کی جانے والی کھجوروں کی وہ فصل ہے جو اپنی نباتی جینیات کے لحاظ سے اپنے ارفع ترین ارتقائی مقام پر ہے، اور پوری کہکشاں میں مہنگی ترین نامیاتی خوراک کے طور پر مشہور ہے۔ شہابی پٹی کے کسی بھی مقام سے محض ایک جیبی دوربین کے ذریعے زمین پر مکہ کے قریب خالص زمینی پتھروں سے بنا کھجور کے پیڑ کا پراچین مجسمہ دیکھا جا سکتا ہے۔ شہر کے محکمۂ آثار قدیمہ کے مطابق قدیم زمانوں کے ایک خواب پرور شہزادے نے اپنے عہد کے سخت جان ترین ہاتھوں سے منتخب کنکر چنوا کر یہ نخل بنوایا تھا۔ مادرِ ارض کے شمس اوّل سے روٹھنے سے متعلق اساطیر میں ہے کہ کھجور کے اس مجسمے کی شاخوں سے نمکین پانی رستا تھا اور اس نخل کے آنسوؤں سے زمین کی زیادہ تر سطح پر پانی کی تہہ موجزن رہتی تھی۔ لیکن نئی بادشاہت کے تین ہزار سالہ جشنِ فرخندہ کے موقع پر اس مجسمے نے رونا بند کر دیا جس سے دھرتی ماں کے چہرے سے نیلا غلاف چھٹ گیا اور اس کی صاف گندمی رنگت تمتما اٹھی۔ چند مقامی فرقے اس مجسمے کو مقدس قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ یہ زمین کی کلی صحرا پذیری کے عہد سے پہلے کا ایک مصنوعی جزیرہ ہے۔ کرّۂ زمین، شہابی پٹی اور اس کے پڑوسی ستارے الشّمس دوم کے درمیان پٹی سے قریب ایک گرم تر مقام پر واقع ہے، جسے یہاں کی مذہبی روایت کی بزرگداشت میں مدار شمس سے آزاد کر کے اپنے اضافیتی مکان پر ساکن و جامد رکھا گیا ہے۔ پُرپیچ زمانی افق پر پھیلی ہوئی اس شہابی پٹی کے پیداواری اوقات و ادوار کی پیمائش کے لیے یہاں کے لوگ زمین کے گرد گھومتے ہوئے اس کے اکلوتے چاند کو ایک مشترک گھڑیال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

 

حال ہی میں مکہ کی قدیم رصدگاہ نے معلوم کیا ہے کہ زمین کی کمیت سے پانچ گنا بڑا ایک حجری جسم اس حیران کن رفتار سے زمین کا تعاقب کر رہا ہے جیسے کسی توپ کا مہیب گولہ اپنے ہدف کی طرف آتا ہو۔ رصدگاہ کے حساب کے مطابق ممکنہ تصادم کی شصت عین اس سیاہ شہابی چٹان پر ہے جو آغاز حیات کے بعد نوع انسان کا دریافت کیا ہوا اولین شہابی پتھر ہے، اور اسے چاندی کی ایک انگوٹھی میں نگینے کی طرح جڑ کر بیت الحرام نامی ایک حجری صندوق پر آویزاں کیا گیا ہے۔ مکہ کے قدیم حجری معبد کے گرد کائنات کی سنگلاخ ترین سیاہ دھاتوں سے اسی وضع کی تین سو مکعب میل بڑی فصیل بنائی گئی ہے، جس نے گزشتہ چھ قمری صدیوں میں ہونے والی شہابی بارشوں اور صنعتی دھول کی بوچھاڑوں میں بیت الحرام کی ڈھال کا کام دیا ہے۔ اس عظیم الجثہ گولے کی کعبہ کے مقدس شہابیے کی جانب کشش کی حتمی وجہ ابھی معلوم نہیں ہو سکی لیکن عامۃ الناس کی ایک بڑی جمعیت کا خیال ہے کہ منطقۂ حوت کی جانب سرخ و فیروزی سیاروں والے بگولے پر آباد لوگ، جو کہ ثقلی حرکیات پر مبنی ناقابل یقین آلات بنانے میں مہارت رکھتے ہیں، یہ خطرہ ان کی ثقلجوہری غلیلوں کے تجربات نے پیدا کیا ہے۔

 

شہابی پٹی کے مختلف گنجان آباد مقامات سے، مختلف تابکاریوں پر نہایت طاقتور لہروں کے حامل پرجوش گیت خلائے بسیط میں نشر کیے جا رہے ہیں کہ یہ لوگ مادرِ ارض کو بچانے کے لیے سبع سماوات کی تمام ذہین مخلوقات کو تہس نہس کر دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ پرآسائش خلائی اونٹوں کی شہر مکہ کی طرف آمد و رفت اور ان میں بیٹھے یاتریوں کی بے چینی میں ہر لمحہ اضافہ ہو رہا ہے۔

 

قریبی سیاروی جھرمٹ بادنجان کے کاریگر جو ربابِ ہستی پر طولِ موجِ ثقلی کے تار کسنے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں، مکہ کے حالیہ قوانین کے احترام میں پراسرار شہابیے کا جائزہ لینے نہیں آ رہے، لیکن وہ اپنے مواصلاتی اڈوں سے مکہ کی رصدگاہ کے ساتھ رابطہ اور معلومات کا تبادلہ جاری رکھیں گے۔ شہر مکہ کے صدر دروازے پر آویزاں کرومیم دھات کی ایک سِل پر یہ تنبیہہ کندہ کی گئی ہے کہ ایسے لوگ شہر میں داخل نہیں ہو سکتے جو یہاں رائج چند اٹل مابعدالطبعی اصولوں کے بارے میں کسی طرح کی تشکیک رکھتے ہوں۔

 

شہابی کان کنی سے وابستہ قبائل کی یونین نے اپنے خام دھاتی ذخائر کا خطیر حصہ ‘ابابیل’ کی تیاری کے لیے فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس دیوپیکر روبالہ کی ہر ایک ذیلی جرّ ثقیل کا متعدد بار تجربہ کیا جا چکا ہے۔ تاہم ملکوتی تعقّل کے آلات پر لاگو کیے گئے جفری نحویات کے چند نو دریافت شدہ قواعد کی ممکنہ کارکردگی پر متعدد مہندس حلقوں کو تحفظات ہیں۔ لیکن ابابیل کی روانگی کی تاریخ قریب ہونے کی وجہ سے ان نکات میں سے صرف بنیادی فعالیتوں کے نتائج پر نظرثانی کی جا سکی ہے۔ رمضان کی ستائیسویں تاریخ کو صفر ساعت پر یہ روبالہ خلائے عرب کی مرکزی طیران گاہ سے خلائے بسیط کی جانب اپنے سفر کا آغاز کرے گا۔ یہ روبالہ اپنے خودکار تعقل کے تحت اس حجری جسم کے متعلق اکٹھی کی ہوئی معلومات کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کی سمت تبدیل کر دے گا، لیکن ایسا نہ کر پانے کی صورت میں وہ خود کو اس حجری جسم سے ٹکرا کر، اسے اور اپنے آپ کو پاش پاش کر دے گا۔

 

مکہ کی انتظامیہ کا اندازہ ہے کہ اس مہم کے بعد ذوالحجہ کی دسویں کو شہر میں طواف کو آنے والے زائرین کا دائرہ قمری مدار سے باہر تک بڑھ آئے گا اور کھربوں انسانوں کی آواز میں وہ قدیمی نغمہ ایک بار پھر نشر کیا جائے گا: “لپّیگ اللہمَّ لپّیگ”۔

ہمارے لیے لکھیں۔