آ ہم
جسموں کاروزہ افطار کریں

اور جب شہر کی گلیوں میں
رات کی زخمی لاش آگرتی ہے
سورج اپنی سرخی سے
کچھ قبروں کے کتبے لکھ جاتا ہے
دن کی بوسیدہ الماری سے
ٹڈیوں کے غول برآمد ہوتے ہیں
اور جگہ جگہ سے
اُجلی صبح کے خواب کتر جاتے ہیں

اِس موہوم سی حسرت پر
کہ ہم اندھی تقدیروں کے غار سے نکلیں
کوئی ہمیں جیون کی
دلدل میں کھینچتارہتا ہے
کوئی ہماری شریانوں میں
خوف کی بھاری زنجیریں چھنکاتا ہے
دنیا اِس جھنکار میں جکڑی جاتی ہے

جب محرومی کی ریت بدن میں اُڑتی ہے
ایسے میں بس ایک سہولت ہے
اپنے تالُوکی خشکی میں
میں تیرے لمس کی شیرینی چکھ لیتا ہوں
مجھ کو تیری طلب کا روزہ لگنے لگتا ہے

اس سے پہلے کہ یہ روزہ
موت کے برہم ہاتھ میں ٹوٹے
آہم اِس کو
اپنے جسم کے میٹھے پھل سے اِفطار کریں
رات کی زخمی لاش
!شہر پر گرنے سے پہلے

One Response

  1. shamoil ahmad

    ارزہ افطار کے امیج کو میں اپنے نے ناول ” گرداب” کا سرورق
    بنانا چاھتا ہوں …..اجازت…..؟لی

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: