Laaltain

آکر گرا تھا ایک پرندہ لہو میں تر

29 جون، 2016
Picture of گل‌زیب خاکوانی

گل‌زیب خاکوانی

برصغیر میں دہشت گردی کوئی آج سے نہیں۔ ہمیشہ صرف اورصرف “جنابِ مذہب ” کی خوش دلی کے لیے انسانوں کو مارا گیا۔اور یہ سلسلہ تب سے شروع ہوا جب وادیءِ ٹک شاسیلیہ “ٹیکسلا” میں جین اور بدھ مت کے مذہبی مراکز، “دھرما راجیکا”، “سرکپ” اور “جولیاں” کے علاوہ تخت بھائی کے مذہبی عبادت خانوں پر بیرونی حملہ آوروں “وایٹ ہنوں” نے دھاوا بول دیا۔ جیسے بامیان کے مجسموں کو ڈائنمایٹ سے اُڑیا گیا اُسی طرح بابری مسجد اور ملُتان کے قدم مندر پرہلاد کو منہدم کردیا گیا۔ یہ سب کچھ مذہب کے نام پر ہوا۔تاریخ مُلتان میں درج ہے کہ پہلے پہل مُلتان میں آدیتہ “سورج” کا مندر ہوا کرتا تھا جسے قرامطیوں نے آکر برباد کر ڈالا۔ بعد ازاں حجاج بن یوسف اور محمد بن قاسم سے دہشت گردی کی وہ رسم چلی کہ اندرا گاندھی اور ان کے بچوں تک اور پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے خاندان سمیت سب کو ختم کر ڈالا۔کچھ کو ریاستی دہشت گردی نے نہیں چھوڑا جن میں ذوالفقار علی بھٹو اور بھگت سنگھ کے نام آتے ہیں ۔

 

جیسے بامیان کے مجسموں کو ڈائنمایٹ سے اُڑیا گیا اُسی طرح بابری مسجد اور ملُتان کے قدم مندر پرہلاد کو منہدم کردیا گیا۔
پچھلے دنوں مشہور قوال امجد فرید صابری دہشت گردی کا شکار ہو گئے۔ ناجانے اُن کی کون سی ایسی بات دہشت گردوں کو ناگوار گزری کہ اُن سے جینے کا حق چھین لیا گیا۔ دہشت گرد یہ نہیں سوچا کرتے کے وہ پانچ بچوں کے باپ ہیں۔ اُن بچوں پر کیا گُزرے گی۔ان کی بیگم، ان کےبہن بھائی عزیز رشتے داراب ان کی پیاری پیاری بھولی باتوں سے محروم ہوجایئں گے اور بچے دستِ شفقت سے۔ امجد صابری نے کیا کیا تھا؟ کیا بگاڑا تھااُن کا؟ وہ تو زخمائے ہوئے غم کھائے ہوئے لوگوں کی جھولی بھرنے کی دعایئں مانگا کرتا تھا۔ تاجدارِ حرم سے نگاہ کرم کی استدعا کرنے والا صوفی درویش صفت آدمی تھا۔ شاید ہارمونیم کے ُسُر اور طبلے کی تھاپ دہشت گردوں کو ناگوار گزرتی ہے۔نسماعتوں سے ہوتے ہوئے دل میں اُتر جانے والی دھنیں اُن سے برداشت نہیں ہوتیں۔ اُن کے دل اس قدر سخت اور پتھر ہو چکے کہ انہیں فقط رونے چِلانے اور دھاڑوں کی آوازیں سکون دیتی ہیں جبکہ پوری دنیا کے ڈپریشن میں مبتلا ازہان انہی سمفنی اور دھنوں کو سُن کر اپنا من بہلاتے ہیں مگر یہ سکون آور ساز دہشت گردوں کی سماعتوں پر گراں گزرتے ہیں۔

 

یہ مقتل گاہ کب وجود میں آئی۔ جہاں علم اور فنونِ لطیفہ کی تمام ہستیوں کو مار ڈالا گیا۔ یا اس بے حس معاشرے میں اہل دماغ خود چل بسے۔ جو باقی ہیں بہت سو نے اپنے کندھوں پر صلیبیں اُٹھا رکھی ہیں اور کچھ نے کفن تک پہن لیا ہے۔اور باقی معاشرہ جو اپنے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھا ہے اور ان کے دماغ سُن کر دیے گئے ہیں۔اور وہ سفید پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایک دوسرے کو یوں دیکھ رہے ہیں جسے پوچھنا چاہتے ہوں کہ کیا ہم زندہ ہں۔ ایک دوسرے سے زندگی کی گواہی مانگ کر زندہ رہنے والے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ لگنے والے معاشرے میں جب پیشاور کے ایک فوجی اسکول میں ننھے منھے بچوں کی خون آلود کتابوں اور گولیوں سے چھلنی جسموں پر تتلیاں آ کر بین کرنے لگیں تو اس بے حس معاشرے کو کچھ نہیں ہوا۔ دو دن روئے پھر دل کو تسلی ہو گئی لاہور میں مسیحی جوڑے کو اس لیے زندہ جلا دیا گیا کہ وہ فقط مسلمان نہیں تھے۔لیکن انسان تو تھے۔

 

اس عرض پاک پر بہتروں بار ناحق خون بہایا گیا۔ جو لوگ آزادی لے کر یہاں آکر بسے ان کو وڈیروں نے اپنا غلام کر دیا۔ جو یہاں سے بھارت جا بسے وہاں شدت پسندوں نے بندھی بنا لیا،غضب دیکھِیے کہ بھارت کے صوبے گجرات میں انسانوں کومسلمان سمجھ کر اور پاکستان کے ہر صوبے میں انسانوں کو غیر مسلم سمجھ کر ان کا قتل عام ہوا۔ آج جس قدر انسانوں کا خون زمین کے لیے ارزاں کیا گیا ہے میں تاریخ دانوں اور اہل علم سے سوال کرتا ہوں ہوں کیا یہ مظالم، یہ کِشت و خون جو اب یہاں ہندوستان پاکستان میں ہو رہا ہے جلیانوالہ باغ سے کم ہے؟ کیا تقسیم میں جب انسانوں کو اپنے گھروں سے نکلال کے مار ڈالا گیا اُن مظالم سے بہنے والا خون آج بہنے والے خون سے زیادہ سرخ تھا؟ کسی طور نہیں۔ زندہ قوموں میں اتنی قتل و غارت گری پر راتوں رات انقلاب جنم لیتے ہیں مگرہم عمران خان کے دھرنوں پر خوش ہونے والے یا نواز شریف کو شیر بنانے والے بے حس، اپاہج اور مفلوج لوگ ہیں۔

 

ریئس امروہوی کی وفات پر اُن کے باکمال بھائی جون ایلیا نے کہا تھا کہ ظالموں کو ان کے دماغ کی افادیت کاعلم تھا اسی لیے ان کے دماغ میں ہی گولیاں گاڑھی گیئں۔
اسی شہر میں جہاں امجد صابری ایسے فنکار کو مارا گیا اسی شہر کی فیوض و برکات کا جائزہ لیں تو بہت پہلے ایک دماغ کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔ جس کا نام تھا ریئس امروہوی۔ وہ اس معاشرے کی بہبود کے لئے اپنا فن استعمال کرتے تھے۔ ریئس امروہوی کی وفات پر اُن کے باکمال بھائی جون ایلیا نے کہا تھا کہ ظالموں کو ان کے دماغ کی افادیت کاعلم تھا اسی لیے ان کے دماغ میں ہی گولیاں گاڑھی گیئں۔ وہ سر تا پا دماغ ہی تو تھے۔ ایک اوربڑے نباض ماہر طبیب اور اپنی حمکت آموز تحریروں سے درد مندوں اور طالبانِ علم کو سیراب کرنے والے حکیم محمد سعید بھی دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ اور بعد ازاں نڈر صحافی محمد صلاح دین کو بھی مار ڈالا گیا۔

 

محسن نقوی جیسے شعرا کو بھی مار ڈالا گیا۔ اگر انہیں نا بھی مارا جاتا تو وہ خود کشی کر چکے ہوتے۔ میں یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اُستاد نصرت فتح علی خان طبعی وفات نہ پاتے تو اب تلک وہ بھی دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہوتے۔ یہ معاشرہ جینے کے لیے نہیں روز روز مرنے کے لیے ہے۔ وہ خوبصورت دماغ جنہوں نے اپنی ڈگریاں سمیت اپنے بچوں سمیت خود کو حکومتی اداروں کی عمارتوں کے مقابل زندہ جلا دیا ان کا نوحہ کون لکھے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سعادت حسن منٹو سمیت وہ بہت سے ادیب جو معاشرے کے ننگے سچ اور زندگی کے زہر میں اپنا قلم بھگو کر لکھ رہے تھےاور پھر اپنی طبعی موت مر گئے؟ ہرگز نہیں یہ معاشرہ جینے کے لیے نہیں روز روز قطرہ قطرہ زہر پی کر مرنے کے لیے ہے۔ سقراط نے بھی یہی زہر پیا تھا اور شری شِو شنکر نے بھی۔ مگر فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ اہل دماغ نے پہلے سوچ لیاکہ یہ بدن جائے اماں نہیں رہا۔

 

پاکستان کے معروف جواں سال شاعر آنس معین بلّے سے لے کر شکیب جلالی اور ثروت حسین تک سب نے اپنی اپنی زندگیوں کی راہ پر خطِ تنسیخ کھینچا۔ اور بقول شکیب۔

 

آ کر گرا تھا ایک پرندہ لہو میں تر
تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر

 

آنس نے کہا
نہ تھی زمین میں وسعت میری نگاہ جیسی
بدن تھکا ہی نہیں اور سفرتمام ہوا۔

 

ثروت کہہ اُٹھے کہ
میں سو ریا تھا اور میری خواب گواہ میں
اک اژدھا چراغ کی لو کو نگل گیا۔

 

یہ معاشرہ جینے کے لیے نہیں روز روز قطرہ قطرہ زہر پی کر مرنے کے لیے ہے۔
موت کو اژدہے کی صورت چراغ کی روشنی کو نگلنے کے استعارے کے طور پر برتا گیا۔ مگر آج وہی اژدہا کبھی سر پر صافہ اوڑھے اور لمبی داڑھی کے ساتھ ہاتھ میں کلاشنکوف اُٹھائے کبھی گیروا رنگ پہنے گلے میں منکے پہن کر ماتھے پر تلک لگائے انسانوں کو بے رحمی سے قتل کرنے میں مذہبی فریضے کی طرح جُتا ہے۔ بدھ مت کو تو سکون محبت و آشتی کا علمبردار کہا جاتا رہا مگر بدھا کے ماننے والوں نے برما میں ایسے رنگ برمائے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ اسے مذہب کہتے ہیں؟ کیا تم صحیفوں سے یہی مطالب نکالتے ہو کہ مذہب کے نام پر مار ڈالا جائے۔ خودکشی نا سہی خود کش دھماکے سہی۔۔۔۔ یہ خود کش دھماکے، حادثے اور شدت پسندی سب موت کی بے رحم تکون سے عکس ریز ہوتی ہوئی تصویریں ہیں وہ منظر نامے ہیں جو سب صداقتوں پر مشتمل حقائق ہیں جو بانسری کی سُر، طبلے کی دھن تا دھن نا اور ستار کے مترنم آہنگ کو لہو لہو کیے ہوئے ہیں۔ ساز ویران ہیں اور شمعیں بُجھی ہوئی اور سُر خاموش ہیں۔ اہل علم کے ساتھ ساتھ اب فنکاروں کو بھی مذہبی دہشت گردی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

 

پاکستانی اور ہندوستانی حکومتیں اور اُن کی آئیڈیالوجی نے بھی معاشرے مین زہر گھولا ہے۔ یہ جملہ گنے چنے سیاسی خاندان اور شدت پسندی کو فروغ دینے والی سبھایئں۔ یہ جنتا پارٹیاں یہ مسلم لیگیاں ذمےدار ہیں اس معاشرے کے۔۔۔۔ جہاں لوگ خود مر جاتے ہیں یا مار دیے جاتے ہیں۔

Image: Mural of Amjad Sabri by S. M. Raza and Aqib Faiz

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *