صحافت ہمیشہ سے ایک ایسا حمام ہے جس میں کچھ اصحاب کو ہر ایک پاکی کا غسل کرتا نظر آتا ہے اور کچھ کو اس مشہور کہاوت کے مصداق سب "ویسے” ہی نظر آتے ہیں۔ اگر میرا لکھا آپ کو بھایا تو میں حق کی صدا، اور اگر میں وہ لکھ بیٹھا کہ جس کو پڑھ کر آپ سے بیٹھا نہ جائے تو پھر میں حرام کھاؤ، بکاؤ، لفافہ اور ان گالیوں کے سوا کچھ ایسی گالیوں کا مستحق بھی کہ جو شرفاء کے ہاں مستعمل نہیں۔
انہوں نے موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے مخدوم جاوید ہاشمی صاحب کو اپنے کالم میں ہاتھ باندھ کر سر جھکا کر کھڑا کیا اور پھر "سیاہی سیاہی” کر دیا۔
غیر مہذب دنیا میں گالی پہلے زبان سے دی جاتی تھی، اور گالی کی عمر اور اس کا پھیلاؤ صرف کہنے سننے والے تک ہوتا تھا، مگر اب "عالمگیر تہذیب” میں گالی بھی عالمگیر ہو چکی ہے۔ زبان سے نکلی گالی سماعتوں سے ٹکراتی تھی اور پھر آہستہ آہستہ اپنا اثر کھو دیتی تھی یا اپنا اثر ایک آدھ شخص تک تا عمر برقرار رکھتی تھی۔ مگر اب گالی ہارڈ یا سافٹ keys سے نکلتی ہے، ورلڈ وائیڈ ویب پر ورلڈ وائڈ جاتی ہے اور انگلیوں کی جنبش سے جنم لیتی گالی کو آنکھیں سنتی ہیں اور یوں یہ گالی ٹیگ یا شیئر ہو کر پھیلتی جاتی ہے۔
یہ گالیاں کبھی اصلی اور کبھی جعلی اکاؤنٹ سے دی جاتی ہیں، لیکن دل سے دی جاتی ہیں۔ گالی دینے والے کو یقین ہوتا ہے کہ "دل سے جو ٹھاہ نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔” سوشل میڈیا پر گالیاں دینے والے عام طور پر کسی سیاسی جماعت، کسی طبقۂ فکر کے ماننے والے لوگ ہوتے ہیں جو مخالف کو اپنی محبت سے نوازتے رہتے ہیں۔ عام طور پر یہ لوگ صرف انہی خبروں یا آراء پر نظر رکھتے ہیں جو ان کے حق میں یا ان کے خلاف ہیں اس کے سوا کیا لکھا اور کہا جا رہا ہے، انہیں کچھ سروکار نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا سے باہر کی دنیا میں follower کبھی گالی نہیں دیتا، لیکن سوشل میڈیا پر اکثر followers ہی گالی دیا کرتے ہیں۔ مگر رواں ہفتے ایک مختلف بات ہوئی۔ ایک بہت ہی بڑے صحافی نے جس کو ایک زمانہ follow کرتا ہے، خود followers کو پیچھے چھوڑ دیا۔
"کوبرا کے پھن سے کالم لکھنے کے دعویدار” جیّد صحافی نے ایک کالم لکھا اور ان کا وہ کالم موجودہ حالات میں ان کی ہر تحریر سے کہیں بڑا ہِٹ ثابت ہوا۔ ویسے تو ان کی ہر تحریر کمال ہوا کرتی ہے۔ کاٹ دار الفاظ ہمیشہ ان کے قلم کی نوک کے سامنے دست بستہ دل میں یہ تڑپ لیے موجود رہتے ہیں کہ ہم میں سے جو جنبشِ قلم سے حضرت کے صفحے پر منتقل ہوا وہ امر ہو جائے گا۔ ان کی تحریر میں ایسا حسن ہے کہ قاری نثار۔
کہیں آپ یہ لکھتے ہیں کہ جاوید ہاشمی کے بغیر نون لیگ ایسی ہی ہے جیسے زردی کے بغیر انڈا، جیسے گاڑی بغیر انجن، جیسے نعل کے بغیر گھوڑا اور جیسے وِگ کے بغیر آپ کے "تقریباً ہم نام” سیاستدان۔
انہوں نے موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے مخدوم جاوید ہاشمی صاحب کو اپنے کالم میں ہاتھ باندھ کر سر جھکا کر کھڑا کیا اور پھر "سیاہی سیاہی” کر دیا۔
انہوں نے لکھا کہ کپتان کی پیٹھ میں تاریخ کے اس نازک موڑ پر خنجر گھونپا گیا ہے۔ یہ ان کا خیال ہے اور اس سے اتفاق نہ بھی کیا جائے تو یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ جاوید ہاشمی کے بیانات سے اور فیصلوں سے تحریک انصاف کو دھچکا لگا ہے۔ انہوں نے یہ اعلان کیا کہ وہ ضمنی انتخابات میں جاوید ہاشمی کے مخالف کی انتخابی مہم میں حصہ لیں گے اور اس کام کو انہوں نے عظیم عبادت قرار دیا۔ یہاں تک بات ٹھیک تھی کہ یہ ان کے خیالات ہیں اور ان کے اظہار کا حق وہ محفوظ رکھتے ہیں۔ مگر میری ناقص اور بہت ہی ناقص رائے میں اس سے آگے بڑھ کر جو انہوں نے رقم کیا وہ مجھ سمیت بہت سوں کے لیے ہضم کرنا ناممکن ہے۔ کیوں؟ میں ان سے عرض کرتا ہوں؛
آپ نے جاوید ہاشمی کو مجہول، بوگس، بدبودار باغی اور "ہمیشہ بکاؤ” قرار دیا۔ آپ نے ناصرف پی ٹی آئی سے ان کی بغاوت کو جعلی لکھا بلکہ یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ اپنے "سابق آقاؤں” سے مل کر بھاؤ بڑھوانے میں ہفتوں سے مشغول تھے۔ آپ نے انہیں ایک سابق حکمران کے فوجی بوٹ کا تسمہ لکھا اور موجودہ کے جوتے کا تلوا لکھا۔ آپ نے یہ بھی لکھا کہ بوڑھا یونیورسٹی کے دنوں میں آپ کا ہم عصر تھا۔ آپ کی ان حالیہ باتوں پر یقین کرتے ہوئے جاوید ہاشمی اور بہت سے دیگر سیاستدانوں کو سیاست کا وہ کچرا مان لیا جائے جو تاریخ کے ڈسٹ بن میں دفن ہونے جا رہے ہیں۔ اگر یہ ٹھیک ہے تو پھر 25 دسمبر 2011ء کے بعد ہفتوں تک لکھے گئے آپ کے معرکہ آرا کالموں کا جائزہ لیا جائے، جن میں کہیں آپ یہ لکھتے ہیں کہ جاوید ہاشمی کے بغیر نون لیگ ایسی ہی ہے جیسے زردی کے بغیر انڈا، جیسے گاڑی بغیر انجن، جیسے نعل کے بغیر گھوڑا اور جیسے وِگ کے بغیر آپ کے "تقریباً ہم نام” سیاستدان۔ 26 دسمبر 2011ء کے کالم میں آپ نے لکھا کہ جاوید ہاشمی سیاست اور جمہوریت کے ماتھے کا جھومر ہے۔ ذہن سے کھرچ کر کون سے ڈسٹ بن میں ڈال دوں،
آپ صرف صحافی نہیں، بہت سوں کی نظر میں میرِ صحافت ہیں۔ جو سیاستدان کر رہے ہیں، انہیں کرنے دیں۔
استاد محترم آپ کا دس جنوری 2012ء کا کالم جس میں آپ نے لکھا کہ؛
ایوان سے نکلے، سرِ بازار بھی آئے
سردار وہی ہے جو سرِ دار بھی آئے
اور اس شعر کے بعد آپ نے جاوید ہاشمی کو سیاست کا سردار، باکردار اور جی دار لکھا۔ میں یہ بھی ماننے کو تیار ہوں کہ ایک فرد کے بارے میں دوسرے فرد کی رائے اس کے فیصلوں اور اس کی چالوں کے ساتھ بدل جاتی ہے تو آپ رائے بدل دیتے، یہ لکھ دیتے کہ دھوکا کھایا، لیکن آپ نے تو بطور خاص انہیں آج "ہمیشہ کا بکاؤ” قرار دے ڈالا ہے۔ باغی کو داغی میں بدلنے کا کام عوام کی نظر میں ایک اور مخدوم نے انجام دیا جو سیاست میں بھی ان کے حریف تھے اور پارٹی میں بھی۔ مگر آپ، آپ صرف صحافی نہیں، بہت سوں کی نظر میں میرِ صحافت ہیں۔ جو سیاستدان کر رہے ہیں، انہیں کرنے دیں۔ ہمارے الفاظ سے تو یہی صدا سدا آنی چاہیے؛
ان کا جو کام ہے، وہ اہلِ سیاست جانیں
میرا تو کام "صحافت” ہے، جہاں تک پہنچے

14 Responses

  1. گلی نورد

    پس ثابت ہوا کہ یہاں زیادہ تر "جید” صحافی دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت فارمولے پر عمل پیرا ہیں. قلم کی کاٹ کا پاس رکھنے کی کوشش میں حسن نثار نے نہ صرف یہ کہ خود کو بے پردہ کر دیا بلکہ اپنے اندر موجود ایک انتہائی اہم نقص کی نشاندہی بھی کی. میں نے اس صاحب کاٹ دار قلم کو پڑھنا دو سال قبل چھوڑ دیا تھا. کیونکہ یہ بھی زیادہ سے زیادہ مسولینی سٹائل کے کسی فاشسٹ لیڈر کی تلاش میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے.

    جواب دیں
  2. Muhammad Shakir Aziz

    بابا جی کے بارے میں مذہب پسند مخالفین کا کہنا ہے کہ پونڈا چڑھا کر لکھتے ہیں۔ اس لیے جب بکتے ہیں تو ایسی واہی تباہی بکتے ہیں کہ خود بھی احساس نہیں رہتا۔

    جواب دیں
  3. Shamas Javaid

    جامی بھائی، آج آپ نے وہ سب کچھ کہ دیا جو کہنے کی جسارت شاید سب نہ کرتے ،،،صحافت کے علمبردار ہونے کے ناطے ہمارے سینئرزکو ایک بات ضرور یاد رکھنی چاہئے کہ اب زمانہ بدل گیا ہے اور اب کسی کا لکھا بھول جانا اک بھول بن چکا ہے،، کیونکہ اب اک اک لفظ محفوظSaveہو جاتا ہے جب دل چاہے اس کو تازہ کردو،،میں تو بس اتنا ہی کہوں گا !
    اے اہل ہنر زرا سنبھل کر ۔۔۔۔۔۔
    ڈاکٹر شمس جاوید سیالکوٹ

    جواب دیں
  4. Sadia

    Hassan Nisar exposed himself through that column, I wonder why he showed so much frustration, he go too far in support of a politician.
    You forgot to mention, ” mein ny imran ky sadqy ussay (JH) maaf kr dia (tha)” Ufff!!

    جواب دیں
  5. adeel

    سب جانتے ہیں کہ محترم حسن نثار کے پاس علاوہ گالیوں اور پاکستان کے اندھیرے مستقبل کی پیش گوئی کے سوا کچھ نہیں
    یہ وہ قلم کار ہے جو ہمیشہ جمہوریت کو گالی دیتا آیا ہے اور جس نے کبھی پاکستان کیلئے کوئی اچھی بات نہیں کی
    یہ ضرور ہے کہ کسی کے دل میں نواز شریف اور بھٹوز کی محبت کا قلزم ٹھاٹھیں نہیں مار رہا
    لیکن ہر وقت سیسی لوگوں کو گالیاں دینا اور سب سے کرپٹ اور قاتل اور سیاستدانوں پر تہمت سمجھے جانے والے لوگوں کی مدح سرائی حسن نثار کاخاصہ رہی ہے
    آپ میرا مطلب سمجھ گئے ہوں گے
    بیلی پور کے بڑے سے فارم ہائوس میں رہنے والا، لاکھوں راپے کی گھڑی اور سوٹ پہن کر غریبوں کی نام نہاد وکالت کرنیوالے اس سابق فلم رپورٹر اور قلمی صحافی کو اب سب پہچان گئے ہیں
    مجھے اس بات کی بے حد خوشی ہے

    جواب دیں
  6. munir el hoceiny

    hassan nisar is mantoo of pakistani journalism. he is the realistic man and uncover the bitter realities of our society.

    جواب دیں
  7. humaira ashraf

    جناب لفظوں اور جملوں کو پکڑیں گے تو بس پکڑتے ہی رہ جائیں گے۔ یہ جو بولتے ہیں وہ محض ہوا میں تحلیل ہونے کے لیے اور جو لکھتے ہیں وہ یاد فراموش کرنے کے لیے، کسی نے کیا خوب کہا ہے

    بدلتی ہے سیاست جب بدل جاتی ہیں تحریریں
    بدلتی ہے حکومت جب بدل جاتی ہیں تصویریں

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: