24ستمبر2013کو آواران ضلع میں آنے والا زلزلہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کو آواران کا کوئی باسی ایک برس بیت جانے کے بعد بھی نہیں بھولا۔ اس زلزلے نے آواران شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 400کے قریب بتائی گئی جب کہ آزاد ذرائع کے مطابق 1000معصوم جانیں خاک کا رزق ہوئیں ۔ اس تباہ کن زلزلے نے آواران کے لوگوں کی معاشرت پر جو اثرات چھوڑے وہ شاید برسوں تک نہ مٹ سکیں ،لوگ لمحوں میں اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے ۔زلزلے نے خود ہی قبریں کھودیں اور سینکڑوں کو خود ہی دفنا دیا،اس گورکنی کے صدمے سے لوگ اب تک نہیں نکل پائے۔
ناکافی امداد پر آواران کے عوام بارہا تشویش کا اظہار کر چکے ہیں اور سڑکوں پر نکل کرانتظامیہ کے خلاف احتجاج کبھی کر چکے ہیں لیکن پنجاب میں آنے والے سیلاب کے برعکس نہ تو ذرائع ابلاغ کی جانب سے اس جانب توجہ دی گئی اور نہ ہی اقتدار کے ایوانوں تک احتجاجی صدائیں پہنچ پائیں۔
زلزلے کے بعد حکومت کی جانب سے بحالی اور امدادکے کاموں کے ذریعہ آواران کی تقدیر بدلنے کے بے شمار دعوے کئے ، آواران کو ماڈل سٹی کا درجہ دینے بلکہ اسے لاہور جیسا شہر بنانے کا اعلان بھی کیا گیا۔ حکومت نے یہ کہہ کر این جی اوز کو بحالی اور امداد کا کام کرنے کے لئےاین او سی دینے سے انکار کردیا کہ حکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان کے پاس اتنے وسائل موجود ہیں کہ وہ آواران کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دے سکیں۔ بین الاقوامی اداروں کے نہ آنے کے باوجود چند قومی این جی اوز نے اس موقع پر آواران کے عوام کی مشکلات کم کرنے کی کوشش کی لیکن ان تنظیموں کی سرگرمیاں آواران کی ڈیڑھ لاکھ سے زائد آبادی کو ریلیف دینے اور انہیں انکا گھر بسانے میں خاطر خواہ معاون ثابت نہ ہو سکیں۔ حکومتی دعوے اور وعدے محض میڈیا اور عالمی اداروں کے لئے تھے،آواران اور پورے بلوچستان کےزلزلہ متاثرین تک حکومت کی جانب سے کئے گئے وعدوں کا عشر عشیر بھی نہیں پہنچ پایا۔
بلوچستان میں آئے زلزلہ کو ایک سال بیت چکاہے مگر آواران اور دیگر علاقوں کے متاثرہ عوام کی مشکلات اور مصائب اپنی جگہ پر ہیں۔ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ امداد تاحال آواران کے عوام تک نہیں پہنچ پائی اور نہ ہی ملبہ اٹھایا جا سکا ہے۔ناکافی امداد پر آواران کے عوام بارہا تشویش کا اظہار کر چکے ہیں اور سڑکوں پر نکل کرانتظامیہ کے خلاف احتجاج کبھی کر چکے ہیں لیکن پنجاب میں آنے والے سیلاب کے برعکس نہ تو ذرائع ابلاغ کی جانب سے اس جانب توجہ دی گئی اور نہ ہی اقتدار کے ایوانوں تک احتجاجی صدائیں پہنچ پائیں۔ موجودہ حکومت کی جانب سے آواران کے 16000منتخب گھرانوں کو فی گھرانہ 2لاکھ پچاس ہزار روپے امداد 3اقساط میں ادا کرنے کی پالیسی کا اعلان کیا گیا تھا۔ آواران کے عوام نے احتجاج کرتے ہوئے امدادی رقم کی یکمشت ادائیگی کا مطالبہ کیا تاہم پراجیکٹ ڈائریکٹر نےاحتجاج کے باوجود تین اقساط میں امداددینے کا پروگرام جاری رکھا۔امداد کی ناکافی فراہمی کے باعث متاثرین گزشتہ موسم سرما کھلے آسمان تلے گزار چکے ہیں اور آنے والی سردیاں بھی بغیر چھت کے گزرنے کااندیشہ ہے۔
بلوچستان میں آئے زلزلہ کو ایک سال بیت چکاہے مگر آواران اور دیگر علاقوں کے متاثرہ عوام کی مشکلات اور مصائب اپنی جگہ پر ہیں۔ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ امداد تاحال آواران کے عوام تک نہیں پہنچ پائی اور نہ ہی ملبہ اٹھایا جا سکا ہے۔ناکافی امداد پر آواران کے عوام بارہا تشویش کا اظہار کر چکے ہیں اور سڑکوں پر نکل کرانتظامیہ کے خلاف احتجاج کبھی کر چکے ہیں لیکن پنجاب میں آنے والے سیلاب کے برعکس نہ تو ذرائع ابلاغ کی جانب سے اس جانب توجہ دی گئی اور نہ ہی اقتدار کے ایوانوں تک احتجاجی صدائیں پہنچ پائیں۔ موجودہ حکومت کی جانب سے آواران کے 16000منتخب گھرانوں کو فی گھرانہ 2لاکھ پچاس ہزار روپے امداد 3اقساط میں ادا کرنے کی پالیسی کا اعلان کیا گیا تھا۔ آواران کے عوام نے احتجاج کرتے ہوئے امدادی رقم کی یکمشت ادائیگی کا مطالبہ کیا تاہم پراجیکٹ ڈائریکٹر نےاحتجاج کے باوجود تین اقساط میں امداددینے کا پروگرام جاری رکھا۔امداد کی ناکافی فراہمی کے باعث متاثرین گزشتہ موسم سرما کھلے آسمان تلے گزار چکے ہیں اور آنے والی سردیاں بھی بغیر چھت کے گزرنے کااندیشہ ہے۔
آواران متاثرین کی بحالی کے کام کو تین سالہ پراجیکٹ کی شکل دینے سے خطیر رقم متاثرین کی امداد کی بجائے پراجیکٹ کے عملہ کی تنخواہوں اور دفاتر پر خرچ ہونے سے بحالی کا کام وسائل کی کمی کا شکار ہے۔ پراجیکٹ کی اہم پوزیشنز پر غیر مقامی افراد کی تعیناتی بھی بلوچ عوام کے ساتھ روا رکھے جانے والےاسی رویہ کی مظہر ہے جو بلوچ عوام کو کئی دہائیوں سے پسماندہ رکھنے کا باعث ہے۔
16000 متاثرہ گھرانوں کے اندراج کا مناسب نظام نہ ہونے کے باعث سرکاری اداروں کی جانب سے امدادی رقوم کی تقسیم کے عمل میں بے قاعدگی اور بدعنوانی کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے۔ زلزلے کے بعدکئے جانے والے سروے میں 40ہزار سے زائد گھرانوں کی فہرست بنائی گئی تھی جس کی مختلف وجوہ کی بنا پر سولہ ہزار خاندانوں تک تخفیف کر دی گئی ۔ اس فہرست سے نکالے جانے والے خاندانوں کے گھر اس قدر مخدوش ہو چکے ہیں کہ ان میں رہنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ 16000گھرانوں کو چھوٹے پیمانے پر ایک ہی سرکاری بنک سے رقم کی ادائیگی کے باعث بھی مشکلات کا سامان کرنا پڑ رہا ہے کیوں کہ امدادی رقم کے چیک اکثر بنک میں کافی رقم نہ ہونے کے باعث کیش نہیں ہو پاتے۔
آواران متاثرین کی بحالی کے کام کو تین سالہ پراجیکٹ کی شکل دینے سے خطیر رقم متاثرین کی امداد کی بجائے پراجیکٹ کے عملہ کی تنخواہوں اور دفاتر پر خرچ ہونے سے بحالی کا کام وسائل کی کمی کا شکار ہے۔ پراجیکٹ کی اہم پوزیشنز پر غیر مقامی افراد کی تعیناتی بھی بلوچ عوام کے ساتھ روا رکھے جانے والےاسی رویہ کی مظہر ہے جو بلوچ عوام کو کئی دہائیوں سے پسماندہ رکھنے کا باعث ہے۔ آواران متاثرین کی خواہش کے مطابق رقم کی یکمشت ادائیگی کے باعث وہ اپنے گھروں کی تعمیربہتر انداز میں کرسکتے تھے لیکن زلزلہ متاثرین سےمشاورت کئے بغیر بحالی اور امداد کا کام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ حکومت کی جانب سے آواران اور بلوچستان کے دیگر علاقوں کی بحالی اور ترقی کے اعلانات پر عملدرآمد نہ کرنا علیحدگی پسند جذبات پروان چڑھانے کا باعث بنا ہے۔ ذرائع ابلاغ اور حکومت کی طرف سے بلوچ متاثرین کو نظر انداز کیے جانے کے باعث مقامی باشندوں کے احساس محرومی میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے جسے کم کیا جا نا وفاق کی سلامتی کے لئے ضروری ہے۔
آواران متاثرین کی بحالی کے کام کو تین سالہ پراجیکٹ کی شکل دینے سے خطیر رقم متاثرین کی امداد کی بجائے پراجیکٹ کے عملہ کی تنخواہوں اور دفاتر پر خرچ ہونے سے بحالی کا کام وسائل کی کمی کا شکار ہے۔ پراجیکٹ کی اہم پوزیشنز پر غیر مقامی افراد کی تعیناتی بھی بلوچ عوام کے ساتھ روا رکھے جانے والےاسی رویہ کی مظہر ہے جو بلوچ عوام کو کئی دہائیوں سے پسماندہ رکھنے کا باعث ہے۔ آواران متاثرین کی خواہش کے مطابق رقم کی یکمشت ادائیگی کے باعث وہ اپنے گھروں کی تعمیربہتر انداز میں کرسکتے تھے لیکن زلزلہ متاثرین سےمشاورت کئے بغیر بحالی اور امداد کا کام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ حکومت کی جانب سے آواران اور بلوچستان کے دیگر علاقوں کی بحالی اور ترقی کے اعلانات پر عملدرآمد نہ کرنا علیحدگی پسند جذبات پروان چڑھانے کا باعث بنا ہے۔ ذرائع ابلاغ اور حکومت کی طرف سے بلوچ متاثرین کو نظر انداز کیے جانے کے باعث مقامی باشندوں کے احساس محرومی میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے جسے کم کیا جا نا وفاق کی سلامتی کے لئے ضروری ہے۔
Leave a Reply