عرفان!
آپ کی آنکھیں
ناقابلِ برداشت ہیں
اُس معاشرے کے لیے
جو اندر سے فتور کا حامل ہو
اُس شخص کے لیے
جو زندگی کی امرت کو
مرتیو کے رنگ میں بِلونا چاہتا ہے
اور اِس تاک میں ہے کہ
آنکھیں
کہیں اندر سے
کُھب نہ جائیں
اور وہ کچھ نہ دیکھ لیں
جو زندگی کو
مرتیو
اور نفرت سے بدل کر
محض ایک چھتنار
پیڑ کی صورت
سایہ فگن کر دے
اور پھل کے بجائے
دو آنکھیں جنمے
جیون کی ارتھ کو تلاشتی
روشن ہوتے
اور رنگ منچ کی اِس جل کھپٹ میں
سادھارن آدمی کی
موجودگی کو
باور کرائے
کیونکہ اِن دنوں یہ کردار
راندہء درگاہ
ہونے کو ہے۔