گلگت بلتستان کے عوام پچھلے اڑسٹھ سالوں سے یکم نومبر کو یوم آزادی بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ مناتے آرہے ہیں۔ یقیناًیہ دن بزرگوں کی قربانیوں کی یاد تازہ کرنے کا دن ہے ۔ آج ہی کے روز 1947 میں گلگت بلتستان کے عظیم سپوتوں نے ڈوگرہ فوج کو شکست دے کر اٹھایئس ہزار مربع میل خطے کو قلیل وقت میں فتح کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ میں اُن تمام جانبازوں خاص طور پر فاتح گلگت بلتستان کرنل مرزا حسن خان کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کرخطہ قراقرم کو ڈوگروں کی غلامی سے نجات دلا کر ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی بنیاد رکھی۔مگر افسوس کہ قوموں کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسی مثال موجود ہو کہ جب کوئی ریاست آزادی کے بعد صرف چودہ دن تک دنیا کے نقشے پر اپنی خود مختاری کو برقرار رکھ سکی ہو۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ جس طرح آزای ایک حقیقت تھی بالکل اسی طرح یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس انقلاب کو ناکام بنانے کے لیے میجر براون اور ان کے حواریوں نے بھر پور کردار ادا کیا۔ ان اصحاب نے الحاق کے نام پر ہمارے قومی ہیروز کو دیوار سے لگا کر بغیر کسی معاہدے کے ایک تحصیلدار کے ہاتھ میں خطہ قراقرم کا نظم و نسق تھما دیا تھا۔کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی کیونکہ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ گلگت بلتستان کے کچھ حصے ایک عرصے تک مہاراجہ کشمیر کے زیر نگیں رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مہاراجہ سے پہلے جموں و کشمیر پر لداخی بلتی اور گلگتی بادشاہوں نے طویل حکمرانی کی ہے۔ لیکن جب تاریخ اپنا رخ بدلتی ہے تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ قوموں کو اپنی تاریخی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے دوسروں کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ایسا ہی کچھ گلگت بلتستان کے ساتھ بھی ہوا۔
اگر ہم سولہ نومبر سے لیکر اٹھائیس اپریل تک کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام اپنی مدد آپ کے تحت جنگ لڑ کر آزادی حاصل کرنے کے باوجود اپنی جدوجہد کے ثمر ات حاصل نہیں کر سکے
جنگ آزادی کے وقت گلگت بلتستان کا علاقہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا اور یہ علاقے کشمیر کے دوسرے علاقوں کی نسبت سیاسی طور پر کمزور تھے جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُس وقت کے کشمیری حکمرانوں نے نہ صرف ہماری آزاد ی پر شب خون مارا بلکہ ہماری شناخت کو بھی متازعہ بنایا۔ اگر ہم سولہ نومبر سے لیکر اٹھائیس اپریل تک کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام اپنی مدد آپ کے تحت جنگ لڑ کر آزادی حاصل کرنے کے باوجود اپنی جدوجہد کے ثمر ات حاصل نہیں کر سکے۔
سردار ابراہیم اور دیگر کشمیری رہنماوں کی آمد، گلگتی عوام سے پوچھے بغیر 28 اپریل 1949 میں معاہدہ کراچی کیا جانا اور اُنیس سو اکہتر میں ون یونٹ کے خاتمے تک اس خطے کو بالکل نظرانداز کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری آزادی کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان تاریخی زیادتیوں کا تمام تر ذمہ دار غیروں کو قرار نہیں دیا جاسکتا ہماری اپنی کوتاہیاں بھی اس میں شامل ہیں۔ آزاد قوموں کے ساتھ اس طرح کے واقعات پیش آنا اور عوام کی جانب سےحقائق سے نظریں چراتے ہوئے یوم آزادی پر تالیاں بجانا یقیناًہماری کوتاہیوں کی ناقابل معافی داستان ہے۔ بدقسمتی سے گلگت بلتستان کے رہنما اس علاقے کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر ہمیشہ خاموش رہے ہیں۔ ہمارے رہنما تب بھی خاموش رہے جب آزاد کشمیر کے برعکس گلگت بلتستان میں ایف۔سی۔آر کا نفاذ کیا گیا۔ اگرچہ بھٹو صاحب نے گلگت بلتستان کا دورہ کرتے ہوئے ایف۔سی۔آر کے ساتھ سٹیٹ سبجیکٹ رول بھی ختم کیا لیکن ہم اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ بعدازاں ضیاالحق نے یہاں مارشل لاء نافذ کیا اور گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کی بنیاد رکھی لیکن تب بھی مقامی رہنماوں نے مخالفت نہیں کی۔ ریاستی مشینری کے ذریعے یہاں لشکر کشی کی گئی لیکن کہیں سے کوئی مزاحمت دیکھنے کو نہیں ملی جس کا خمیازہ گلگت بلتستان کے عوام آج بھی بھگت رہے ہیں۔افسوس کی بات ہے کہ آج بھی مقامی لوگوں کے حقوق اور سیاسی شناخت کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ ہم گلگت بلتستان والے سال میں کئی بار یوم آزادی مناتے ہیں یہ ماجرا بھی شائد ہی دنیا میں کہیں اور دیکھنے کو نہ ملے۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے وزیر اعلیٰ صاحب کو بھی مسئلہ کشمیر کا حصہ ہونے پر فخر محسوس ہونے لگا ہے حالانکہ تاریخی طور پر مقامی آبادی گلگت بلتستان کو کشمیر سے علیحدہ علاقہ تسلیم کرانے کے لیے جدوجہد کرتی رہی ہے۔ ہمارے موجودہ وزیراعلیٰ دربار اسلام آباد سے اس علاقے کو خصوصی (یعنی معذور) صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ ایک اور پروگرام میں موصوف مسلک کی بنیاد پر ریاست کا سودا کرنے اورعوام کو تقسیم کرنے کی طرف اشارہ کر رہے تھے ایسا لگ رہا تھا کہ ان کا بس چلے تو ریاست کو اپنے عہدے کے عوض فروخت کردیں۔
گلگت بلتستان کی محرومیوں پر خاموشی کی ایک بڑی وجہ ذرائع ابلاغ پر عائد پابندیاں ہیں۔ محدود تعداد میں مقامی سطح پر چھپنے والے اخبارات میں سچ بولنے اور لکھنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ان اخبارات میں قومی خبریں بھی چھان بین کے بعد ہی شائع ہوتی ہیں۔
گلگت بلتستان کی محرومیوں پر خاموشی کی ایک بڑی وجہ ذرائع ابلاغ پر عائد پابندیاں ہیں۔ محدود تعداد میں مقامی سطح پر چھپنے والے اخبارات میں سچ بولنے اور لکھنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ان اخبارات میں قومی خبریں بھی چھان بین کے بعد ہی شائع ہوتی ہیں۔ وزیر اعظم صاحب نے امریکہ یاترا کے دوران ایک انٹرویو میں فرمایا کہ پاکستان میں اس وقت کوئی سیاسی قیدی نہیں، شاید گلگت بلتستان کے سیاسی کارکنوں کی جبری حراست انہیں سیاسی قید نہیں لگتی۔ سچ تو یہ ہے کہ آج بھی یہاں ریاستی حقوق کے حوالے سے بات کرنے کی کوشش کرنے والوں کو سرکاری طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ اس وقت کئی مقامی رہنما گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع کی جیلوں میں غداری کے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں، ان کا جرم صرف یہ ہے کہ یہ ریاست سے اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے شناخت اور حقوق مانگتے ہیں۔ ہمارے سابق وزیراعلیٰ سے لےکر موجودہ حکمرانوں تک کو کسی کومعلوم ہی نہیں کہ ہمارے اصل مسائل کیا ہیں۔ مقامی رہنما بارہا کہہ چکے ہیں کہ اگر ہم نے پاکستان کے ساتھ (جبراً یا رضامندی کے ساتھ) الحاق کیا تھا تو اب ہمیں قبول کیجئے مگر وفاق ہمیں قبول کرنے کو تیار نہیں۔ وفاقی حکومت کے مطابق گلگت بلتستان ‘آئینی طور پر’ پاکستان کا حصہ نہیں ہے۔ اس طرح گلگت بلتستان کے عوام کو آئین پاکستان کے تحت پاکستانی شہریوں کو حاصل حقوق میسر نہیں۔ لیکن کیا کریں ہمارے سیاست دان اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں کہ ہماری محدود حیثیت کی وجہ سے ہمارے مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ سرکاری اداروں میں کرپشن عام ہو چُکی ہے، جدید تعلیم کا فقدان ہے، زراعت، معدنیات اور سیاحت کے حوالے سے تمام تر قدرتی وسائل موجود ہونے کے باوجود ہم آج بھی اسلام آباد سے گندم کی بھیگ مانگ رہے ہیں کیا آذادی کا مطلب یہی ہے ؟کیا یہی ہماری قربانیوں کا صلہ ہے؟
ہمیں یکم نومبر کوآزادی کا دن منا کر اپنے اوپر ماتم کرنے کے بجائے آزادی کی روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق حق خود ارادیت حاصل کرنے کےلیے کوشش کرنی ہوگی۔ وفاق پاکستان کو بھی چاہیئے کہ اس مسئلے پراب تسلیوں سے کام چلانے کے بجائے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ اس وقت جو نظام یہاں رائج ہے اس نظام سے یہاں کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ یہاں کے عوام آج بھی صحت،تعلیم، خوراک، روزگار اور بہتر سہولیات کےلیے ترس رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام اب ‘متازعہ’ نہیں رہنا چاہتے انہیں اپنی شناخت اور پہچان چاہیئے۔ اس مقصد کے لیے فوری قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ مقامی آبادی کی محرومیوں کا ازالہ کیا جا سکے۔
Leave a Reply