Laaltain

آزادی مارچ یا آخری جلسہ

14 اگست، 2014
آئے دن تبدیلی اور حقیقی آزادی کا شوروغوغا سننے کو مل رہا ہے، گزشتہ ایک ماہ سے آزادی مارچ اور انقلاب کی باتیں بڑھ چڑھ کر سنائی دے رہی ہیں، روزانہ ٹیلی ویژن پر بے تحاشہ تقاریر ، مباحثے اور بیانات سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں ،ساتھ ساتھ سیاسی جوڑ توڑ اور ملاقاتوں کا تانتا بندھا ہے اور تو اور ہمارے ایسے رہنما جو کبھی عوامی مقامات پر دکھائی یا سنائی نہیں دیےعوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں مصروفِ عمل ہیں جبکہ اپنی طاقت سے بے خبر عوام ہمیشہ کی طرح انقلابی نعروں کی کشش سے کھچے چلے آرہے ہیں اور ایک نئے پاکستان کی تشکیل کو اسلام آباد کی طرف چل پڑے ہیں۔
ایک طرف جہاں حکمران جماعت کو اپنی بادشاہت چھنتی نظر آ رہی ہے اور پاکستان تحریکِ انصاف کے قائد تقریباً20 سال کی تگ و دو کے بعد اپنی کامیابی کا خواب دیکھ رہے ہیں وہیں کینیڈا پلٹ انقلاب فروش بھی اپنا کاروان لئے شامل باجہ ہیں ۔ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی بے بسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف جہاں میاں شہباز شریف پاکستان تحریکِ انصاف کے قائد عمران خان صاحب سے ملاقات کرنے اور انہیں راضی کرنے میں مصروف تھے تو وزیراعظم اپنی ہی پارٹی کے اختلافات ختم کرنے کے ساتھ ساتھ خان صاحب کو مذاکرات کی دعوت دینے پر مجبور تھے۔ اب جب کہ مہینہ بھر کی سیاسی سرگرمیوں کے بعد تحریک انصاف اور طاہر القادری صاحب اپنے انقلابی کاروان لئے حکومت گرانے اسلام آباد کی طرف روانہ ہو چکے ہیں تو کئی سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں ،سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ( ن) اب کسی سیاسی چال کا سہارا لے رہی ہے یا پھر واقعی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی ہے؟
حالیہ سیاسی محاذآرائی عمران خان اور طاہر القادری سمیت شریف برادران کے لئے بھی سیاسی بقاء کی جنگ ہےتاہم سیاسی جماعتوں خصوصاً جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، اے این پی اور ایم کیوایم کی حمایت کے بغیر حکومت کے خاتمہ کا دعوی محض خام خیالی نظر آتا ہے۔
چار حلقوں کی گنتی دوبارہ کرانے، الیکشن کمیشن کی تشکیل نو اور انتخابی اصلاحات سمیت تمام معاملات سڑکوں کی بجائے پارلیمان میں حل ہونے ہیں اور پارلیمان کے اندر بات چیت، مفاہمت اور بحث کی گنجائش سڑکوں کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی ہے لہذا اگر یہ سیاسی چال ہے تو اس سے مسلم لیگ (ن) کو دو سے تین ماہ کا وقت نئی حکمتِ عملی طے کرنے کے لیے مل جائے گااور اگر عمران خان صاحب جو بظاہر حکومت گرانے چل نکلے ہیں ، سیاسی مفاہمت کے تحت حکومت گرانے اور وزیراعظم کے مستعفی ہو نے کے مطالبات سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو ان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا ؟
نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو اسلام آباد میں مارچ اور دھرنا عمران خان صاحب کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کردیں گے ؛ اگر وہ آزادی مارچ کو کسی معاہدے کے تحت مختصر کر دیتے ہیں یا پھرایک جلسہ کی صورت میں چند گھنٹوں کے لیے اسلام آباد میں رونق لگائے رکھتے ہیں اور حکومت گرائے بغیر واپس لوٹ آتے ہیں تو بہت ممکن ہے کہ یہ ان کی زندگی کا آخری کامیاب جلسہ ہو اور وہ اپنے حامیوں کا اعتبار کھو بیٹھیں۔تاہم اگر خان صاحب اپنے اسی جوش و جذبے کے ساتھ پاکستان کے عوام کو لیکراسلام آباد روانہ ہو جاتے ہیں اور حکومت کو پسپا ہونے پر مجبور کردیتے ہیں تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملکِ پاکستان کے “بادشاہ” کو ایک بار پھر اپنی بادشاہت کھونا ہو گی۔ حالیہ سیاسی محاذآرائی عمران خان اور طاہر القادری سمیت شریف برادران کے لئے بھی سیاسی بقاء کی جنگ ہےتاہم سیاسی جماعتوں خصوصاً جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، اے این پی اور ایم کیوایم کی حمایت کے بغیر حکومت کے خاتمہ کا دعوی محض خام خیالی نظر آتا ہے۔عمران خان صاحب کو سوچ سمجھ کر اسلام آباد میں مارچ اور دھرنے کے دوران مطالبات کرنا ہوں گے، ایسے مطالبات جو فریقین کے لئے قابل قبول ہوں اور صورت حال کے باعزت حل کو یقینی بنا سکیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *