پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے آزادی مارچ کے دوران رہنما بننے کا اپنی زندگی کا سب سے اہم ، قیمتی او ر آخری موقع ضائع کر دیا ہے۔اگر صرف آزادی مارچ کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ 16 اگست کی صبح چار بجے تک پاکستان تحریک انصاف کا آزادی مارچ انتہائی کامیاب اور بہترین انتظامات کی عکاسی کررہاتھا ۔ پرویز خٹک ،شاہ محمود قریشی ،جاوید ہاشمی اور عمران خان کی تقاریر سن کر یوں لگ رہا تھا جیسے آزادی مارچ نے واقعی اسلام آباد کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔اگرچہ اس وقت دھرنے کے مقام پرلوگ بہت زیادہ نہیں تھے لیکن اس وقت تک آزادی مارچ نہایت کامیاب دھرنے کی شکل اختیار کرچکا تھا۔شدید بارش میں عمران خان بھی کارکنوں کے ہمراہ بھیگتے رہے ، عمران خان بھی اسی جگہ رہے جہاں ہزاروں کارکن رہے ، عمران خان بھی وہی سفر کر کے آئے جو کارکنان نے طے کیا تھا،وہ کارکنوں کے ساتھ ان جیسا ہی کھاتے پیتے رہے ۔ یہ وہ وقت تھا کہ عمران خان پاکستان کے وہ واحد رہنما بن چکے تھے جس کے ساتھ ہزاروں کارکن موسم اور بارش کی سختیاں برداشت کرنے کو گھر بار چھوڑ کر اسلام آباد آ بیٹھے تھے۔عمران خان کے خطاب اور کارکنوں کے جذبہ نے حکمرانوں اور ایوان اقتدار کی دیواروں کو ہلا کر رکھ دیا۔یہ وہ وقت تھا کہ” وزیر اعظم عمران خان” کے نعروں کی گونج وزیر اعظم ہاوس تک پہنچ رہی تھی اورمسلم لیگ (ن) کے لئے عمران خان ایک بھیانک خواب کی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔لانگ مارچ اور دھرنے کے دوران اپنی رہائش گاہ جانے اور سول نافرمانی کی تحریک چلانے تک عمران خان عوام کا لیڈر بننے لگا تھا، غریب کارکنوں کا قائد لگ رہا تھا، جس کے آتے ہی خیبر پختونخواہ سے آئے ہوئے کارکن جنہوں نے سڑک پر چالیس گھنٹے گزارے تھے، مطمئن ہو گئے تھے کہ عمران خان آ گیا ہے اب سب کچھ وہی ہو گا جو ہم کہیں گے ، اور ایک نیا پاکستان بنا کر ہی لوٹیں گے۔
ہزاروں انسانوں کو کھلے آسمان تلے تیز بارش میں چھوڑ کر چلا جانے والا اور کروڑوں پاکستانیوں کو ریاست کے خلاف سول نافرمانی پر اکسانے والا فرد کسی بھی طرح عوامی رہنما نہیں ہو سکتا۔ تحریک انصاف اور آزادی مارچ کی ناکامی کی تما م تر ذمہ داری عمران خان کے سر ہوگی جوبحران کے وقت سیاسی بردباری اور قومی مفاد میں سیاسی فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم نظر آئے ہیں۔
آزادی کے متوالے نیا پاکستان بنانے کو اسلام آباد میں موجود تھے لیکن پھر اچانک سب کچھ ختم ہو گیا ،سب کچھ تباہ ہو گیا ۔نئے پاکستان کا خواب دیکھنے والی انکھیں چندھیا گئیں ، کشمیر ہائی وے اور اطراف میں چالیس گھنٹوں سے گیلے کپڑوں میں پی ٹی آئی کے جھنڈے اٹھائے کارکن جو کئی میل پیدل سفر کر کے آئے تھے مایوس ہونے لگے۔وہ تما م نوجوان جو لاہور سے اسلام آباد دہشت گردی اور گرفتاریوں کے امکانات کی پروا کئے بغیرعمران خان کی گاڑی کو حصار میں لئے چالیس گھنٹوں میں پہنچے تھے پریشان دکھائی دینے لگے۔چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں کہ کل تین بجے دوبارہ عمران خان آئیں گے؟ وہ اب کہاں جائیں گے اور ہم کہاں جائیں گے؟ دھرنا اور آزادی مارچ کا کیا ہوگا؟ کیا ہم کل تین بجے تک غلامی میں رہیں گے؟یہ کیا ہو گیا ہے ہم سے کسی نےکھانے اور پانی کا نہیں پوچھا، یہ نہیں پوچھا کہ اس تیز بارش میں گھاس اور مٹی پر ہم کیسے رات گزاریں گے ؟کل تین بجے تک کیسے رہیں گے اپنے لیڈر کے بغیر۔ ہم کیوں آ گئے ہم کیا کرنے آئے ہمارے ساتھ کیا ہو گیا ، عمران خان کہاں چلے گئے ؟ مایوسی کے عالم میں کچھ جذباتی کارکنوں نے بنی گالہ جانے کا فیصلہ کیا اور پیدل وہاں چلے گئے اور بعض لوٹ گئے۔
ہفتے کے روز صبح پانچ بجے کشمیر ہائی وے پر ہزاروں (چلو تمہارے مطابق لاکھوں) کارکنوں کو بے یارو مددگار چھوڑ کر بنی گالہ میں جا کر سونے اور بعد ازاں اتوار 17 اگست 2014سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا فیصلہ عمران خان کے سیاسی کیرئیر کو ختم کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ عمران اب کبھی عوامی رہنما نہیں بن سکتےوہ عوام کی نمائندگی اور مسیحائی کا حق کھو چکے ہیں ۔سول نافرمانی کی تحریک چلانے جیسے فیصلوں کے باعث صرف عمران خان ناکام نہیں ہوئے بلکہ ان کے جذباتی فیصلوں کے باعث ہزاروں کارکن اور کروڑوں لوگ ناکام ہوئے ہیں ۔کسی سیاسی جماعت یا سازش نے نہیں بلکہ عمران خان کے فیصلوں نے پاکستان تحریک انصاف آزادی مارچ ناکام بنایاہے۔ہزاروں انسانوں کو کھلے آسمان تلے تیز بارش میں چھوڑ کر چلا جانے والا اور کروڑوں پاکستانیوں کو ریاست کے خلاف سول نافرمانی پر اکسانے والا فرد کسی بھی طرح عوامی رہنما نہیں ہو سکتا۔ تحریک انصاف اور آزادی مارچ کی ناکامی کی تما م تر ذمہ داری عمران خان کے سر ہوگی جوبحران کے وقت سیاسی بردباری اور قومی مفاد میں سیاسی فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم نظر آئے ہیں۔

Leave a Reply