Laaltain

آزادی سے ذمہ داری تک کا سفر ضروری ہے

16 مئی, 2014
Picture of محمد شعیب

محمد شعیب

معاملہ ڈاکٹر عامر لیاقت کی آف کیمرہ ریکارڈنگ کی ریلیز سے شروع ہوا تھا یا مبشر لقمان اور مہر بخاری کی پروگرام کے وقفوں کے دوران آپس کی آف کیمرہ گفتگو کے سامنے آنے سے، مگر اب باری جیو اور شائستہ واحدی کی ہے جن کے مارننگ شو میں وینا ملک کی شادی کی رسوم کے موقع پر نشر کی جانے والی قوالی کو بنیاد بنا کر پرانے حساب چکانے کے لئے مبشر لقمان اور اے آر وائی کی جانب سے جیو کے خلاف اشتعال پھیلایا جا رہا ہے(دلچسپ بات یہ ہے کہ اے آروائی کے مارننگ شو میں بھی یہی قوالی ایک شادی کے موقع پر چلائی جا چکی ہے)۔مبینہ پروگرام اور اس میں قوالی چلائے جانے کا عمل درست ہے یا نہیں ، اس سے قطع نظر جیو بمقابلہ اے آر وائی کا اصل نقصان اس ناظر کو ہوگا جو پی ٹی وی کو صرف اس لئے نہیں دیکھتا کہ وہاں حکومتی سچ ہے ، سچائی نہیں۔ کسی بھی ضابطہ اخلاق کی موجودگی کے بغیر کام کرنے والے میڈیا ہاوسز جہاں بنا تصدیق خبروں اور بنا تحقیق تجزیوں کے باعث کسی کی بھی عزت محفوظ نہ تھی ، پہلی بار اپنی ہی “طاقت اور آزادی” کا شکار ہوئے ہیں۔


Shameful act of Geo hurts religious sentiments by arynews


ARY did the same what GEO did few days ago by amanasif737

(جیو اور اے آر وائی کی جانب سے مارننگ شوز میں پیش کی جانے والی قوالی)

 

جیو کی حمایت یا مخالفت کئے بنا اے آروائی کے پروگرام کھراسچ اور اس کے میزبان مبشر لقمان کے طرز عمل اور اس قوالی کی نشاندہی کے وقت کو کسی بھی طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ حامد میر پر حملے کے بعد آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ کے خلاف 8 گھنٹے نشریات پر جیو اور جنگ کے خلاف پراپیگنڈا اور بائیکاٹ کا معاملہ ابھی ختم نہیں ہواتھا کہ اب ایک ماہ پہلے ڈاکٹر شائستہ واحدی کے پروگرام “اٹھو جاگو پاکستان” میں وینا ملک کی شادی کی رسوم کے دوران چلائی جانے والی ایک قوالی کو بنیاد بنا کر جیو پر مذہبی جذبات مجروح ہونے اور اہل بیت کی توہین جیسے الزامات لگا کر معاملہ مزید سنگین بنا دیا گیا ہے۔
تمام چینلز کی جانب سے جیو کے خلاف مواد کی اشاعت یقیناً جیو کے سابقہ طرزِعمل کا ردعمل ہے اور تما م دیگر چینل ان واقعات کو بدلہ لینے کے ایک موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں لیکن عوامی اور صحافتی حلقوں میں جیو کے خلاف پائے جانے والے ردعمل اور نفرت کو کسی بھی طرح مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایک جمہوری معاشرے کے قیام کے لئے جس آزاد اور ذمہ دار صحافت کی ضرورت ہوتی ہے ، صحافتی حلقے اسی قدر غیر ذمہ دار اور پیشہ ورانہ اخلاقیات سے محروم ہیں۔ ہر اینکر پرسن کو صحافی ہونے کے ناطے پیشہ ورانہ اخلاقیات اور صحافتی ذمہ داریوں کی پرواہ کئے بنا کسی بھی فرد اور ادارے کے خلاف فرد جرم عائد کرنے اور سزا تجویز کرنے کے جو خود اختیار کردہ عدالتی اختیار حاصل تھے اب ان کی زد میں خود صحافی اور صحافتی ادارے ہیں۔ نیوز بلیٹنز اور ٹاک شوز میں الزامات اور جوابی الزامات کو جو سلسلہ شروع ہو چکا ہے اس کی وجہ سے عوامی اہمیت کے مسائل سامنے لانے ، حکومتی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ پیش کرنے اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ جیسے صحافتی فرائض کی ادائیگی میں کسی کی دلچسپی نہیں رہی۔
میڈیا چینلز کی جانب سے ایک دوسرے پر غداری، توہین مذہب اور اشتعال انگیزی کے الزامات سے اسی رحجان کی عکاسی ہوتی ہے جس کے تحت گزشتہ کئی دہائیوں سے پورا معاشرہ ایک دوسرے کوکافر، غدار اور ایجنٹ قرار دیتا آیا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں قدم قدم پر فتووں کی بارود سرنگیں بچھی ہوں مذہبی جماعتوں اور مذہبی علماء کو ہر معاملہ میں مذہبی رائے دینے کے لئے ٹاک شور میں بلالینے کا عمل آج ٹی وی سکرینوں کو برقعے پہنانے اور ڈاڑھیاں رکھوانے کی حد تک پہنچنے کو ہے۔
اس بات سے قطع نظر کے “اٹھو جاگو پاکستان” کے پروڈیوسرز سے ہونے والی اس نادانستہ غلطی کا ازالہ ہو سکے گا یا نہیں ،جیو کے خلاف مظاہروں، فتووں اور احتجاج کا جو سلسہ شروع ہو چکا ہے اس سے صحافتی آزادی اور اظہار رائے کے بنیادی حق کو شدیدنقصانات پہنچے کا اندیشہ ہے۔ میڈیا چینلز کی جانب سے ایک دوسرے پر غداری، توہین مذہب اور اشتعال انگیزی کے الزامات سے اسی رحجان کی عکاسی ہوتی ہے جس کے تحت گزشتہ کئی دہائیوں سے پورا معاشرہ ایک دوسرے کوکافر، غدار اور ایجنٹ قرار دیتا آیا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں قدم قدم پر فتووں کی بارود سرنگیں بچھی ہوں مذہبی جماعتوں اور مذہبی علماء کو ہر معاملہ میں مذہبی رائے دینے کے لئے ٹاک شور میں بلالینے کا عمل آج ٹی وی سکرینوں کو برقعے پہنانے اور ڈاڑھیاں رکھوانے کی حد تک پہنچنے کو ہے۔ سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین کی جانب سے جیو کے بائیکاٹ کے فتوے کی سیاہی دیگر علماء کی جانب سے جیو کی معذرت قبول کئے جانے اور احد کے پہاڑ پر خدا کے حضور عامر لیاقت کی معافی سے دھل پائے گی یا نہیں، یہ بات طے ہے کہ صحافتی اداروں کے اختلافات کو مذہبی تناظر میں دیکھنے، پرکھنے اور حل کرنے سے کیمروں، مائیکرو فونز اور ٹی وی سکرینوں پر بھی شریعت نافذ کرنے کی مدنی و تبلیغی کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔اور توہین مذہب اور توہین رسالت جیسے حساس موضوعات کو سیاسی اور کاروباری مقاصد کے لئے استعمال کرنے والی مذہبی تنظیموں اوردینی شخصیات کے تعاون سے ذرائع ابلاغ اور اظہار رائے کی آزادی ختم کرنے کی کوششوں سے اجتناب بے حد ضروری ہے، وگرنہ سبھی اینکر پرسنز کے سکرپٹ، رائے ونڈ سے منظور ہو کر آیا کریں گے ۔
جیو اور اے آر وائی کے پروگرامز میں پیش کی جانے والی ” سبھی خوش ہیں خدا بھی خدائی بھی ” کچھ عرصہ قبل تک ہندوستانی شادیوں میں بخوشی گائی جاتی تھی، تشویش کا پہلو اب اس قوالی کا متنازعہ ہو جانا ہے۔ ہندوستان میں بالخصوص اور مسلم ممالک میں بالعموم اہل بیت سے عقیدت اور محبت کا اظہار اور اس کے ذرائع بعض مکاتب فکر اور مسالک کے لئے متنازعہ رہے ہیں، لیکن لکھنو، دہلی اور پنجاب میں شعیہ سنی اشتراک کے باعث برداشت کا ایسا کلچر پیدا ہو چکا تھا جس کے تحت مشترکہ رسم و رواج اور ان کے احترام کی گنجائش نکل آئی تھی جو بد قسمتی سے پاکستان میں روز بروز کم ہوتا جارہا ہے۔ ایےو تنازعات کا ٹی وی سکرینوں تک پہنچ جانا اور اہل سنت و الجماعت، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین اور دیگرشدت پسند مذہبی تنظیموں کی شمولیت سے پاکستان میں مختلف مکاتب فکر کے باہمی میل جول کے کلچر کے ختم ہونے کا بھی پتہ چلتا ہے۔ توہین مذہب اور توہین رسالت کے مقدمات کے حوالے سے نہایت متنازعہ اور شدت پسند ماضی کے حامل مولانا احمد لدھیانوی کی اس معاملے میں شمولیت اس مسئلے کو کسی بھی وقت جیو اور اس کے عملہ کے لئے خطرناک رخ دے سکتی ہے۔ جیو پر توہین اور گستاخی کے الزامات کے بعد توہین کی تعریف، معیارات اور متعلقہ قانون کے نفاذ کے طریق کار کو طے کرنے کی ضرورت پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے۔ ان الزامات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایسے الزامات زیادہ تر سیاسی اور کاروباری مفادات کے حصول کے لئے عائد کئے جاتے ہیں۔
جیو اور دیگر چینلز کے پروگرامز کے خلاف پایا جانے والا عوامی ردعمل یقیناً یہ ظاہر کرتا ہے کہ معاشرہ نہ تو صحافتی آزادی کو قبول کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی پاکستانی صحافیوں میں اتنی پیشہ ورانہ اہلیت ہے کہ قومی اہمیت کے نازک معاملات پر کوئی ذمہ دار تبصرہ یا تجزیہ کر سکیں۔ صحافیوں اور صحافتی اداروں کو خود احتسابی کے تحت ضابطہ اخلاق طے کرنا ہوگا اور اسے نافز بھی کرنا ہوگا، وگرنہ حکومت، ریاستی ادارے اور معاشرہ پابندیاں عائد کرنے اور سزائیں دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔
متنازعہ ٹی وی پروگرام میں وینا ملک کی شادی پرقوالی گائے جانے پر اعتراض بجا لیکن اس کی بنیاد پر چینلز اور پروگرامز کی بندش کا مطالبہ اسی سوچ کی غمازی ہے کرتا ہے جس کی بنیاد پر پتنگ اڑانے، موسیقی، سنگ تراشی، رقص کرنے اور پتلون پہننے پر اعتراضات کئے جاتے ہیں۔ متنازعہ پروگرام میں پیش کی جانے والی قوالی اور اس کے موقع محل کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس قوالی کا مقصد کسی بھی طرح توہین یا گستاخی کرنا نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا ہی عمل تھا جس کے تحت لوگ برگزیدہ ہستیوں کے نام پر اپنے بچوں کا نام رکھتے ہیں ، سو ایک شادی کے موقع پر ایک متبرک اور مقدس شادی کو یاد کرنا توہین اور گستاخی نہیں ہو سکتے۔تاہم اسے اشتہار حاصل کرنے کا ذریعہ بنانا نامناسب ضرور ہے اور معاشرے کی ایک واضح اکثریت کے لئے ناقابل قبول ہے۔لیکن اگر ایک چینل کی جانب سےمنافع حاصل کرنے کے لئے اٹھو جاگو پاکستان میں متنازعہ مواد نشر کرنا غلط ہے تو دوسرے چینل کی جانب سے ریٹنگ کی خاطر اس مواد کی نشاندہی کی اشتعال انگیز کوشش بھی اتنی ہی غلط ہے۔ تخلیق اور اظہار کے محدود ذرائع کو بھی اگر مذہبی اور مسلکی بنیاد پر سنسر کیا جانے لگا تو پاکستان بہت جلد گلی محلے میں ، سڑکوں اور چوراہوں پر لوگوں کے ہاتھ کٹتے، کوڑے لگتے اور سنگسار ہوتے دیکھے گا۔اسی لئے تخلیقی مواد اور رسم و رواج بارے فیصلہ کرتے ہوئے ان کی جمالیاتی اور ثقافتی حیثیت کو عقائد اور نظریات سے زیادہ اہمیت دی جانی چاہئے۔
قومی نشریاتی چینلز پر نشر کئے جانے والے مواد کو جس احتیاط سے منتخب کیا
جانا چاہئے اس کا فقدان تمام چینلز میں نظر آتا ہے جس کے باعث ایسی ناپسندیدہ صورت حال پیدا ہوتی ہے۔جیو کے مبینہ مارننگ شو کے مواد پر اگر اعتراض کی گنجائش موجود بھی ہے تو اس اعتراض پر جیو ، ڈاکٹر عامر لیاقت اور شائستہ واحدی کی جانب سے معذرت کافی سمجھنی چاہئے۔ گوکہ مارننگ شوز میں ہونے والی شادیاں کسی بھی طرح پاکستانی یا مشرقی ثقافت کی نمائندہ نہیں قرار دی جاسکتیں لیکن اس گھٹن کے ماحول میں ٹی وی سکرین پر ہی سہی لوگوں کو اکٹھے اور خوش دیکھنا ہی بہت ہے۔انصار عباسی اور اوریا مقبول جان جیسے دانشوروں کیجانب سے جاری فحاشی کے خلاف جہاد میں حصہ بننے کی بجائے ٹی وی چینلز اور اخبارات کو آزادی اور فحاشی کے درمیان فرق سمجھنے اور پاکستان کے ثقافتی تنوع کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنا ہوگی۔


Dr Shaista Lodhi Apology -15 May 2014 by GeoNews


Dr. Aamir Liaquat’s Statement on Inadvertent… by GeoNews

(ڈاکٹر شائستہ واحدی اور ڈاکٹر عامر لیاقت کی جانب سے پیش کی گئی معذرت)
میڈیا ہاوسز کے کاروباری اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے موجودہ رحجان سے بنیادی انسانی آزادیوں کے احترام پر مبنی معاشرے کاخواب نہ صرف دھندلا گیا ہے بلکہ ایسا سوچنا کہ اظہار رائے کی آزادی ممکن ہو سکے گی اب ایک بے وقوفی معلوم ہوتا ہے۔ بلوچوں کی گمشدگی ، طالبان حملوں اور ریاستی جبر کے خلاف تحفظ کے لئے جو لوگ پریس کلب کے سامنے جمع ہوتے تھے بہت جلد ڈنڈے اور بندوقیں اٹھائے براہ راست نشریات کے خلاف پارلیمنٹ کے باہر دھرنا دیے بیٹھے نظر آئیں گے۔ ٹی وی چینلز کے خلاف عوامی ردعمل صحافتی اداروں کی بھی ناکامی ہےکیوں کہ وہ عوام کو عقائد نظریات اور آراء سے اختلاف کرنے اور اختلاف برداشت کرنے کا شعور اور فہم دینے میں ناکام رہے ہیں۔
صحافتی و ادارتی پالیسیز میں میڈیا مالکان اور کاروباری مفادات کو ترجیح بنانے سے بھی صحافت اور پروگرامنگ کا معیار گرا ہے بلکہ سچ اور جھوٹ کے ازلی پیمانوں میں تخریب کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ کیا اب کسی بھی تجزیہ، خبر یا تبصرے پر یقین کیا جا سکے گا، شاید کبھی نہیں۔ مفادات کے تحت خبریں اور تجزیے پیش کرنے یا نہ کرنے کے فیلوےں نے میڈیا ہاوسز کو پرچون کی دکانیں بنا دیا ہے جہاں کچھ بھی خالص اور اصلی کہہ کر بیچا جا سکتا ہے اور خراب ہونے کی صورت میں واپس بھی نہیں کیا جا سکتا۔
وہ تمام ٹیلی وژن چینل اور تنظیمیں جو پیمرا ،عدالتوں اور حکومتی اداروں کی مداخلت سے جیو کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کررہے ہیں انہیں اس بات کا خیال کرنا ہوگا کہ ایک بار کسی چینل کو جرمانے یا پابندی کی روایت کا آغازہوا تو کسی بھی چینل کو آزاد اور خود مختار نہیں رہنے دیا جائے گا۔
مذہبی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے صحافتی اداروں کے بائیکاٹ اور ان پر بندش کے مطالبات کی شدت اور تواتر صحافتی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کو ایک ایسی بند گلی میں دھکیلنے کے مترادف ہے جہاں سے واپسی یا پیش قدمی دونوںممکن نہیں۔ جیو اور دیگر چینلز کے پروگرامز کے خلاف پایا جانے والا عوامی ردعمل یقیناً یہ ظاہر کرتا ہے کہ معاشرہ نہ تو صحافتی آزادی کو قبول کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی پاکستانی صحافیوں میں اتنی پیشہ ورانہ اہلیت ہے کہ قومی اہمیت کے نازک معاملات پر کوئی ذمہ دار تبصرہ یا تجزیہ کر سکیں۔ صحافیوں اور صحافتی اداروں کو خود احتسابی کے تحت ضابطہ اخلاق طے کرنا ہوگا اور اسے نافز بھی کرنا ہوگا، وگرنہ حکومت، ریاستی ادارے اور معاشرہ پابندیاں عائد کرنے اور سزائیں دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔
مسئلہ آئی ایس آئی پر الزام تراشی یا مارننگ شوز کی قوالیاں نہیں ،صحافتی آزادی سے صحافتی ذمہ داری تک کی وہ پختگی حاصل نہ کر پانا ہے لکھے گئے حرف اور دکھائے گئے عکس کو تقدیس اور حرمت عطا کرتی ہے ۔وہ تمام ٹیلی وژن چینل اور تنظیمیں جو پیمرا ،عدالتوں اور حکومتی اداروں کی مداخلت سے جیو کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کررہے ہیں انہیں اس بات کا خیال کرنا ہوگا کہ ایک بار کسی چینل کو جرمانے یا پابندی کی روایت کا آغازہوا تو کسی بھی چینل کو آزاد اور خود مختار نہیں رہنے دیا جائے گا۔ ذرائع ابلاغ کی حاصل کردہ آزادی پر پریشر گروپس اور ریاستی اداروں کے دباو پر کاروائی کی روایت کل کو سچ کا گلا گھونٹنے اور ہر احتجاج کا منہ بند کرنے کے اقدامات کا جواز فراہم کرنے کا بھی باعث بنے گی۔ جیو اور دیگر چینلز کے خلاف کاروائی کے مطالبہ میں ریاستی اداروں کے ملوث ہونے کا شائبہ مستقبل کی تمام جمہوریت پسند قوتوں کا راستہ روکنے کی کوشش بھی ہو سکتا ہے۔ وکلاء تحریک، بلوچ گمشدگیوں اور تعلیم عام کرنے میں ذرائع ابلاغ نے اپنے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے ذمہ دار رویہ نہ اپنایا تو کل کو غیر جمہوری قوتوں کی پیش قدمی روکنے والا کوئی بھی نہیں ہوگا۔

ہمارے لیے لکھیں۔