کچھ کم فہم اِحْساس کم تری کا شکار نام نہاد دانشور، سیاستدان اور انقلابیے اِس یوم آزادی پہ بھی اپنی گزشتہ روش سے تائب نہیں ہوئے اور پھر سے ملک آزاد کرانے اسلام آباد جا پہنچے ہیں، ان کے بقول پاکستان ابھی بھی حقیقی طور پہ آزاد نہیں اور یہاں کے لوگ ابھی بھی غلام ہیں۔ پاکستان کو دوبارہ آزاد کرانے والے سیاسی قائدین کا سیاسی قد کاٹھ اپنی جگہ تاہم خاکسار کی رائے اس کے برعکس ہے ۔ میرا ماننا یہ ہے کہ اختلاف رائے اورآزادی اظہار کا حق جس قدر ہمیں پاکستان میں حاصِل ہے اس کا تصور یورپی ممالک میں بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ میں ان لوگوں کی خدمت میں کچھ ایسی مثالیں پیش کرنے جا رہا ہوں جو مکمل طور پہ ” میڈ ان پاکستان ” ہیں، باقی صیح غلط کا فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے۔ عوام کی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے ” صرف اور صرف میرٹ ” کی بنیاد پہ پاکستانیوں کو حاصل خصوصی آزادی کی سینکڑوں مثالوں میں سے چندکا انتخاب کیا گیا ہے۔
کچھ کم فہم اِحْساس کم تری کا شکار نام نہاد دانشور، سیاستدان اور انقلابیے اِس یوم آزادی پہ بھی اپنی گزشتہ روش سے تائب نہیں ہوئے اور پھر سے ملک آزاد کرانے اسلام آباد جا پہنچے ہیں، ان کے بقول پاکستان ابھی بھی حقیقی طور پہ آزاد نہیں اور یہاں کے لوگ ابھی بھی غلام ہیں۔
1۔ شادی ہو فوتگی ہو یا محض کرکٹ کھیلنی ہو، سڑکیں مَلنے اور بند کرنے کی جو قنات آور آزادی پاکستان میں حاصل ہے دنیا میں کہیں اور نہیں ۔ آپ با آسانی چالیس فٹ کی روڈ پہ ٹینٹ لگا کے سڑک کو آمدورفت کے لیے مکمل طور پہ بند کرسکتے ہیں ۔اس کام میں میلاد منانے والے اور دھرنادینے والے بھی کسی سے پیچھے نہیں۔
2۔ بتی چلی جائے یا بل ادا نہ کرنے پر میٹر کٹ جائے بوریت سے بچنے کے لیے آپ سڑکوں پراحتجاجاًٹائر جَلا سکتے ہیں،گاڑیوں کے شیشے توڑ سکتے ہیں بسوں کو آگ لگا سکتے ہیں، حتٰی کہ پورے شہر کو مفلوج کر سکتے ہیں، وه بھی جب تک آپکا دِل چاہے ۔ایسے معاملات میں حکومت بھی آپکے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی ذیادہ کوشش نہیں کرتی ۔
3۔صرف پاکستان میں آپ کویہ آزادی ہے کہ آپ کسی کو بھی کافر کہہ سکتے ہیں اور ان کافروں کے خلاف اعلان جہاد کر کے ان کی عبادت گاہوں کو نذر آتش کرسکتے ہیں۔ ” جو نہ مانے وه بھی کافر ” کے نعرے لگا سکتے ہیں اور غیر پسندیدہ مسلک کے لوگوں کو جب اور جہاں چاہیں مار سکتے ہیں ۔ خدارا بتائیے اس سے بڑھ کر اور کون سی آزادی رہ گئی ہے جو آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟
4۔سیاسی مخالفین کو ” یہودی ایجنٹ ” کہنے کی جو سہولت پاکستان میں دستیاب ہے شاید جہاں سچ مچ "یہودی ایجنٹ” تیار ہوتے ہیں وہاں بھی میسر نہیں ہو گی۔آپ کسی کو کسی بھی نقطہ نظر کی حمایت یا مخالفت کرنے پر غیر ملکی ایجنٹ کہہ سکتے ہیں اور اِس ضمن میں آپ کو کسی قسم کے ثبوت پیش کرنے کی بھی چنداں ضرورت نہیں بس آپ کا کہہ دینا ہی کافی ہے،یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر دوسرا فرد ہر پہلے شخص کے یہودی ایجنٹ ہونے کا اعلان کرچکا ہے۔
5۔ ” نظریہ ضرورت ” ، ” قومی سلامتی ” اور ” وسیع ترقومی مفاد ” کے قالین تلے آپ اپنی غلطیاں باآسانی چھپا سکتے ہیں ۔ ایسی غلطیوں کی بازیافت اور بعدازاں مواخذےکے لئے عوام بھی کچھ زیادہ تردد نہیں کرتی کیونکہ اِس سے کچھ مخصوص لوگوں کی ” آزادی ” پہ حرف آ سکتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں آزادی سے پہلے بھی ہیرو تھے اور آزادی کے بعد بھی ہیرو ہی رہیں گے۔
6۔یہ آزادی بھی صرف پاکستانیوں کو حاصل ہے کہ فرائض کی انجام دہی میں ناکامی کی صورت میں کبھی کسی وزیر کو استعفیْ نہیں دینا پڑتا، ہمارے سابق وزیر ریلوے کی ہی مثال لے لیں ؛موصوف کا کہنا تھا کہ بہت سے ممالک ہیں جہاں ریلوے سرے سے ہے نہیں ہے .لہذا مجھ پہ تنقید نہ کی جاے ویسے بھی ریل ملک کے لئے ضروری نہیں ۔ یا وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ کے ہاتھوں برپا ہونے والے سانحہ ماڈل ٹاون کے بعد کی ڈھٹائی ملاحظہ کر لیجئے۔دیکھ لیجئے ناکام ہونے کی اتنی آزادی اور کہاں دستیاب ہو گی۔ سنا ہے ولایت میں تو ذرا سے بات پہ وزرا شرم کے مارے استعفی دے ڈالتے ہیں۔
7۔اگر آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی اور اس کے خلاف دن رات زہر اْگلا تھا تب بھی آپ کو پاکستان میں پاکستان کا ٹھیکیدار بننے کی مکمل آزادی ہے ،بلکہ آپ کو نظریہ پاکستان کے تمام ” کاپی رائٹ ” اسلام اور مسلمان کی تشریح اور نمائندگی کے جملہ حقوق سمیت دے دیے جاتے ہیں۔ یہی آزادی آمروں کے کاسہ لیسوں کو جمہوریت کی تشریح اور انقلاب برپا کرنے کے حوالے سے ہے۔
غور کرنے پر یہ احساس اور قوی ہوتا جاتا ہے کہ ہم مکمل ” آزاد ” ہیں بلکہ شاید یہ کہنامناسب ہو گا کے بالکل ہی آزاد ہیں، لہذامیں قائد اعظم کی روح کو اطمینان دلانا چاہوں گا کہ انکا ملک مکمل ” آزاد ” ہے، اور جو تھوڑی بہت کسر تھی وہ آزادی مارچ نے پوری کر دی ہے۔ سو اب راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔

2 Responses

Leave a Reply

%d bloggers like this: