03مئی سے 26مئی 1950 کے دوران پاکستان کے پہلے وزیر اعظم جناب لیاقت علی خان صاحب کے دورہ امریکہ سے آج تک پاکستان کے کسی بھی سربراہ یا اعلیٰ عہدیدار کا دورہ امریکہ پوری دنیا کے میڈیا کی نظروں میں ہوتا ہے۔ پاکستان کا دفاعی و معاشی حوالے سے ایک اہم خطے سے تعلق ہے، یہی وجہ ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ کی نظریں پاکستان پر لگی رہتی ہیں۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے بعد سے پاکستان کا جھکاؤ امریکہ کی طرف رہا ہے۔ پاکستانی تاریخ میں بہت کم ایسے ادوار گزرے ہیں کہ پاکستانی خارجہ پالیسی کا جھکاؤ کسی اورعالمی طاقت یا بلاک کی جانب ہوا ہو۔ جیسے بھٹو دور کے بعض اقدامات سے روس سے کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانے کا تاثر ملتا ہے۔ بھٹو صاحب کے علاوہ کسی اور حکم ران کی پالیسیوں سے امریکی اثر سے نکلنے کی کوششوں کا اظہار نہیں ہوتا۔
بھٹو دور کے بعد ایک نیا رحجان یہ سامنے آیا کہ عالمی میڈیا اور ممالک پاکستان کی سیاسی قیادت کے بجائے فوجی قیادت کے دوروں کو زیادہ اہمیت دینے لگا اس کی وجہ فوج و حکومت میں تناؤ کو گردانا جاتا ہے۔
ایوب خان کے 1961 کے دورہ امریکہ کے دوران جو استقبال اور پذیرائی ایوب خان کو نصیب ہوئی شاید ہی اب تک کسی پاکستانی سربراہ یا عہدیدار کو امریکی انتظامیہ کی جانب سے اس انداز میں خوش آمدید کہا گیا ہو۔اگرچہ یہ استقبال امریکہ کے اپنے مقاصد کے لیےتھا لیکن بہر حال وہ ایک فقید المثال سفارتی استقبال تھا۔ اسی سے اندازہ ہو تا ہے کہ اس وقت امریکی ایوان ہائے اقتدار میں پاکستان کوکس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے (اس استقبال کی چند نایاب تصاویر مجھے ایک دوست کے توسط سے دیکھنے کا موقع ملا ورنہ آج کی نسل تو اس سے واقف نہیں ہے )۔
آنے والے ادوار میں بھٹو اور ضیاء دور میں ملا جلا رجحان رہا کیوں کہ ان ادوار میں امریکہ کو اپنے مقاصد کی تکمیل میں کچھ مسائل کا سامنا ضرور کرنا پڑا۔ بھٹو دور میں بھی تعلقات معمول سے ہٹ کر استوار نہ ہو سکے ، ضیاء دور میں پاکستان اور امریکہ کا اتحاد اگرچہ پاکستان کی عسکری اور تزویراتی اہمیت میں اضافہ کا باعث بنا تاہم روسی افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان کی اہمیت کم ہوئی۔ حالانکہ ضیاء دور میں سوویت یونین کو توڑنے میں پاکستان کا کردار شاید امریکہ کے لیے ہمیشہ احسان مند رہنے کا سبب بنتا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
بی بی اور میاں صاحب نے بالترتیب دو دو مرتبہ اقتدار کے ایوانوں کی سیر کی اور دونوں ہی امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے،سوائے 28مئی1998جب میاں صاحب نے قدرے جرات کا مظاہرہ کرت ہوئے ایٹمی تجربات کیے۔ بھٹو دور کے بعد ایک نیا رحجان یہ سامنے آیا کہ عالمی میڈیا اور ممالک پاکستان کی سیاسی قیادت کے بجائے فوجی قیادت کے دوروں کو زیادہ اہمیت دینے لگا اس کی وجہ فوج و حکومت میں تناؤ کو گردانا جاتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے متضاد آراء پائی جاتی ہیں تاہم تجزیہ کار و ماہرین اس بات میں کوئی دو رائے نہیں رکھتے کہ پاکستان کی بنیادیں اس وقت ایک مضبوط دفاع کی وجہ سے کھڑی ہیں۔بد قسمتی سے پاکستان میں کمزور سیاسی حکومتوں کی وجہ سے مسلح افواج اپنے آئینی کردار کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی طرح خارجی تعلقات کے حوالے سے پاکستانی موقف پر بھی اثر انداز ہوتی رہی ہیں۔
پرویز مشرف دور کے بعد فوج کےکردار پر شدید تنقید کی جاتی رہی ہے، دہست گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے پاکستانی فوج کے دورخے کردار، بلوچ آپریشن اور سیاسی عمل میں مداخلت کے باعث فوج کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ کیانی صاحب نے جب فوج کی قیادت سنبھالی تو ان کا زیادہ عرصہ فوج کی ساکھ بحال کرنے میں ہی صرف ہوا۔ اس تمام عرصے میں جب بھی کوئی فوجی یا سیاسی سربراہ بیرون ملک بالخصوص امریکہ جاتا اس کو مزید تعاون کا پروانہ تھما دیا جاتا۔ کیانی صاحب نے مشکل حالات میں فوج کی قیادت کی چھڑی جنرل راحیل شریف کے سپرد کی ۔ نئے چیف آف آرمی سٹاف کے سامنے نہ صرف فوج کے سیاسی کردار کے تاثر کو ختم کرنے کا چیلنج تھا بلکہ پاک افغان معاملات ،پاک بھارت تعلقات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی کردار پر عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنے کا ہدف بھی تھا۔ جنرل راحیل شریف کا نومبر کے آخر میں کیا گیا امریکہ کا دورہ اسی سلسلے کی ایک کڑی قرار دیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلی دفعہ ایسا ہواہے کہ مسلح افواج کے سربراہ کو اس درجہ پروٹوکول دیا گیا اور اس حد تک گرمجوشی کا مظاہرہ کیا گیا،امریکہ کی اعلیٰ عسکری قیادت جنرل راحیل شریف کو خصوصی اہمیت دیتی نظر آئی۔ مختلف دفاعی تنصیبات اور اداروں کے دورے کے موقع پر بھی جنرل راحیل شریف کو خصوصی پروٹوکول دیا گیا۔ بے شک کسی بھی ملک کی فوجی قیادت کو پروٹوکول دینا طے شدہ روایات ہیں لیکن دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پاکستانی کردار سے نالاں امریکی قیادت اور پاکستانی حکام میں ایک واضح خلیج حائل ہو چکی تھی۔ لیکن جنرل راحیل شریف کو موجودہ دورہ امریکہ کے موقع پر یہ تاثر کافی کم ہوا ہے۔ موجودہ آرمی چیف کے دورہ امریکہ سے قبل ضرب عضب اور آپریشن خیبرون کے دوران عسکری کامیابیوں کے باعث عالمی سطح پر پاکستان کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔
آنے والے ادوار میں بھٹو اور ضیاء دور میں ملا جلا رجحان رہا کیوں کہ ان ادوار میں امریکہ کو اپنے مقاصد کی تکمیل میں کچھ مسائل کا سامنا ضرور کرنا پڑا۔ بھٹو دور میں بھی تعلقات معمول سے ہٹ کر استوار نہ ہو سکے ، ضیاء دور میں پاکستان اور امریکہ کا اتحاد اگرچہ پاکستان کی عسکری اور تزویراتی اہمیت میں اضافہ کا باعث بنا تاہم روسی افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان کی اہمیت کم ہوئی۔ حالانکہ ضیاء دور میں سوویت یونین کو توڑنے میں پاکستان کا کردار شاید امریکہ کے لیے ہمیشہ احسان مند رہنے کا سبب بنتا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
بی بی اور میاں صاحب نے بالترتیب دو دو مرتبہ اقتدار کے ایوانوں کی سیر کی اور دونوں ہی امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے،سوائے 28مئی1998جب میاں صاحب نے قدرے جرات کا مظاہرہ کرت ہوئے ایٹمی تجربات کیے۔ بھٹو دور کے بعد ایک نیا رحجان یہ سامنے آیا کہ عالمی میڈیا اور ممالک پاکستان کی سیاسی قیادت کے بجائے فوجی قیادت کے دوروں کو زیادہ اہمیت دینے لگا اس کی وجہ فوج و حکومت میں تناؤ کو گردانا جاتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے متضاد آراء پائی جاتی ہیں تاہم تجزیہ کار و ماہرین اس بات میں کوئی دو رائے نہیں رکھتے کہ پاکستان کی بنیادیں اس وقت ایک مضبوط دفاع کی وجہ سے کھڑی ہیں۔بد قسمتی سے پاکستان میں کمزور سیاسی حکومتوں کی وجہ سے مسلح افواج اپنے آئینی کردار کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی طرح خارجی تعلقات کے حوالے سے پاکستانی موقف پر بھی اثر انداز ہوتی رہی ہیں۔
پرویز مشرف دور کے بعد فوج کےکردار پر شدید تنقید کی جاتی رہی ہے، دہست گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے پاکستانی فوج کے دورخے کردار، بلوچ آپریشن اور سیاسی عمل میں مداخلت کے باعث فوج کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ کیانی صاحب نے جب فوج کی قیادت سنبھالی تو ان کا زیادہ عرصہ فوج کی ساکھ بحال کرنے میں ہی صرف ہوا۔ اس تمام عرصے میں جب بھی کوئی فوجی یا سیاسی سربراہ بیرون ملک بالخصوص امریکہ جاتا اس کو مزید تعاون کا پروانہ تھما دیا جاتا۔ کیانی صاحب نے مشکل حالات میں فوج کی قیادت کی چھڑی جنرل راحیل شریف کے سپرد کی ۔ نئے چیف آف آرمی سٹاف کے سامنے نہ صرف فوج کے سیاسی کردار کے تاثر کو ختم کرنے کا چیلنج تھا بلکہ پاک افغان معاملات ،پاک بھارت تعلقات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی کردار پر عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنے کا ہدف بھی تھا۔ جنرل راحیل شریف کا نومبر کے آخر میں کیا گیا امریکہ کا دورہ اسی سلسلے کی ایک کڑی قرار دیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلی دفعہ ایسا ہواہے کہ مسلح افواج کے سربراہ کو اس درجہ پروٹوکول دیا گیا اور اس حد تک گرمجوشی کا مظاہرہ کیا گیا،امریکہ کی اعلیٰ عسکری قیادت جنرل راحیل شریف کو خصوصی اہمیت دیتی نظر آئی۔ مختلف دفاعی تنصیبات اور اداروں کے دورے کے موقع پر بھی جنرل راحیل شریف کو خصوصی پروٹوکول دیا گیا۔ بے شک کسی بھی ملک کی فوجی قیادت کو پروٹوکول دینا طے شدہ روایات ہیں لیکن دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پاکستانی کردار سے نالاں امریکی قیادت اور پاکستانی حکام میں ایک واضح خلیج حائل ہو چکی تھی۔ لیکن جنرل راحیل شریف کو موجودہ دورہ امریکہ کے موقع پر یہ تاثر کافی کم ہوا ہے۔ موجودہ آرمی چیف کے دورہ امریکہ سے قبل ضرب عضب اور آپریشن خیبرون کے دوران عسکری کامیابیوں کے باعث عالمی سطح پر پاکستان کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلی دفعہ ایسا ہواہے کہ مسلح افواج کے سربراہ کو اس درجہ پروٹوکول دیا گیا اور اس حد تک گرمجوشی کا مظاہرہ کیا گیا،امریکہ کی اعلیٰ عسکری قیادت جنرل راحیل شریف کو خصوصی اہمیت دیتی نظر آئی۔
آرمی چیف کے دورہ امریکہ کو خصوصی اہمیت اس لیے بھی دی جا رہی تھی کہ 2014 کے بعد افغانستان سے امریکی اور اتحادی فوج کی واپسی کے بعد کی صورت حال عالمی طاقتوں کے لیے بہت اہم ہےاور پاکستان کے لیے بھی محفوظ پاک افغان سرحد یقیناًاہمیت کی حامل ہے۔ اندرونی سطح پر ہم جن مسائل کا شکار ہیں ان میں پاک افغان سرحد پر شدت پسندوں کی آزادانہ نقل و حرکت بہت اہم مسئلہ ہے۔ افغانستان کی سمت سے سرحد کی حفاظت کی ذمہ داری یقیناًافغان و نیٹو فورسز کی ہے۔ آرمی چیف کو موجودہ دورہء امریکہ سے شاید امریکہ یہ سمجھ چکا ہے کہ جب تک ہمارے مفادات کا تحفظ نہیں گا تب تک پاکستان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف موثر کاروائی نہیں کرے گا۔
غیر جانبدار تجزیہ کار بھی اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ شاید یہ پہلا موقع تھا کہ جب پاکستان کے آرمی چیف کے دورہء کے موقع پر "Do More” کی گردان سننے کو نہیں ملی۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ امریکہ کو یہ باور کروا دیا گیا ہے کہ خطے میں ہمارا کردار صرف ایک تماشائی کا نہیں ہے بلکہ پاکستان خطے کا ایک اہم ملک اور عالمی برادری میں ایک ذمہ دار ایٹمی قوت ہے۔ شایداسی لیے امریکی حکام کے رویے آرمی چیف کے دورہ امریکہ کے موقع پر کچھ بدلے نظر آئے۔ پاکستان اور امریکہ کے بہتر ہوتے تعلقات نہ صرف پاکستان اور امریکہ بلکہ خطے کی سکیورٹی صورت حال کے لیے بھی نہایت اہم ہیں۔
غیر جانبدار تجزیہ کار بھی اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ شاید یہ پہلا موقع تھا کہ جب پاکستان کے آرمی چیف کے دورہء کے موقع پر "Do More” کی گردان سننے کو نہیں ملی۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ امریکہ کو یہ باور کروا دیا گیا ہے کہ خطے میں ہمارا کردار صرف ایک تماشائی کا نہیں ہے بلکہ پاکستان خطے کا ایک اہم ملک اور عالمی برادری میں ایک ذمہ دار ایٹمی قوت ہے۔ شایداسی لیے امریکی حکام کے رویے آرمی چیف کے دورہ امریکہ کے موقع پر کچھ بدلے نظر آئے۔ پاکستان اور امریکہ کے بہتر ہوتے تعلقات نہ صرف پاکستان اور امریکہ بلکہ خطے کی سکیورٹی صورت حال کے لیے بھی نہایت اہم ہیں۔
بہت بہترین تجزیہ کیا ہے.