آدمی قید ہے
وقت میں، خون میں، لفظ میں
آدمی قید ہے
آدمی کا نہیں کوئی پرسان حال
دیوزاد طرب سے خدائے شبستان غم تک نہیں
دار کی نوک سے
آبنوسی تفکر لٹاتے قلم تک نہیں
آدمی کا لہو،بے نشاں، نوحہ خواں
آدمی کا سفر رائگاں، بے اماں
بستیوں میں ہیں آباد
سب بے کفن آدمی بے پیرہن آدمی،
اور ان کے تعفن زدہ ذہن میں زندگی قید ہے
آدمی قید ہے
مذہبوں کے علمدار، شب کے پرستار یہ آدمی
سرحدوں کے نگہدار یہ آدمی
اک طلسم سیہ پھونکتے خواب کے زیر منقار یہ آدمی
بے یار، بے کار یہ آدمی
اپنی تقدیس کا بوجھ کاندھوں پہ لے کر
اپنی تاریخ کا درد آنکھوں میں لے کر
موت کے ہیں طلبگار یہ آدمی
بھاگتے دوڑتے آدمیوں کے ریوڑ میں
ہونٹوں کی آہستگی قید ہے
اپنے ہی شہر کو بھسم کرتی ہوئی آگ میں روشنی قید ہے
آدمی قید ہے
آدمی سے کہو
موت نزدیک ہے
آدمی سے کہو،راہ تاریک ہے
آدمی سے کہو،وہ جو کچھ کررہا ہے، نہیں ٹھیک ہے
آدمی سے کہو
اپنے جلتے گھروں کی حفاظت کرے
اپنے بیمار ہوتے ہوئے موسموں کی حفاظت کرے
اپنی تاریخ کو چھوڑ دے، اپنے مستقبلوں کی حفاظت کرے
آدمی سے کہو
وہ گزرتے ہوئے اور گزرے ہوئے وقت کے درمیاں
آج بھی قید ہے
آدمی قید ہے
Image: Arshile Gorky