رُکے ہوئے زمانوں کا ذکر ہے جب لوگ تجسس سے گریز کرتے تھے۔ آبادی سے دور جنگل کے خاتمے پر جوپہاڑ تھے ان میں سے کسی کی غار میں ایک گُرو اور اس کے فرمابردار شاگرد کا ٹھکانا تھا۔گُرو سو کہ اٹھتا تو نہانے کو گرم پانی تیار ملتا ۔ پھر دونوں مل کر اپنی کھیتی سے کشید کردہ ناشتہ کرتے۔ گُرو اُونچی جگہ بیٹھتا اور شاگرد زمین پر ۔۔۔۔۔مگر ان کا کھانا ہمیشہ ایک سا ہوتا۔جنگل سے لایا گیا شہد اور اپنی بکریوں کا دودھ گھونٹ کر پیا جاتا اور پھر دونوں جنگل کی سیر کو نکل جاتے۔ گُرو دو قدم آگے اور چیلادو قدم پیچھے ۔ شاگرد جنگل سے ایندھن اکٹھا کرتااور گُرو ایک پتھر پر بیٹھا اس سے باتیں کیا کرتا۔ دنیا کی، موسم کی، جنگل کی، زندگی کے دکھ سکھ کی، کھانے کی،بھیڑ ،بکریوں اور ان کے باڑے کی، گرمی میں چھاوں کے سکھ کی اور سردی میں آگ کی آسائش کی، گزرے ہوے وقت کی، رات دیکھے گےی خواب کی،ہوا کے چلنے اور رُکنے کی، چاند ستاروں کی، پھول پودوں کی، اندھیرے اور روشنی کی، بچپن کی، جوانی کی، بڑھاپے کی، مرگ کی باتی۔۔۔۔زندگی کی وہ عام باتیں جو کبھی نہیں رُکتیں اور جو سب لوگ باقی سب لوگوں سے کرتے ہیں۔اور شاگرد ان بظاہر عام باتوں سے کوئی نصیحت، کوئی آگہی پکڑنے کو ہلکان ہو جاتا، نت نیُ ترکیبیں سوچتا، پھندے بناتا لیکن سالم نصیحت تو کیا وہ کبھی ان کی گرد کو بھی نہ پہنچ پاتا۔
فرمانبردار ہونے کے ناطے اسے کیھص اپنےمہان گُرو سے کچھ پوچھنے کا حوصلہ نہ ہو پایا۔ وہ دن بھر گنتی کے چند لفظ بولتا اور ان کا انتخاب بھی یوں کیا جاتا کہ کسی لفظ سے بلند آہنگی تو نہیں ٹُپکتی، جلدبازی کا اظہار تو نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ کسی کام کی اجازت چاہنے والے الفاظ بھی زبان کی پٹاری کے سب سے نچلے خانے میں رکھے جاتے؛اشد ضروری کی تہمت کے عنوان کے تحت۔
اسے اسی حالت میں سات برس بیت گئے تو گُرو کو اس پر رحم آگیا۔ تب اس نے شاگرد پر جمی دیمک اور جالوں کی تہیں اتاریں اوراس کے کان میں آخری سچ تک پہنچنے کا راستہ اور نقشہ پھونکا
وقت نے گزرنا جاری رکھا اور انہیں ایسے ہی رہتےسات برس گزر گےا۔ فرمانبردار شاگرد اب مرید سے زیادہ بیٹا لگنے لگا تھا۔ دونوں ایک اونچائی پہ بیٹھ کر کھانا کھاتے،راستوں پر ساتھ ساتھ چلتے، شاگرد کبھی کبھار بات کرنے لگا تھا ،اس کی کچھ جاننے کی خواہش اور لگن وقت کے ساتھ بڑھ گیا تھی لیکن نہ تو گُرو کے لفظوں سے عرفان کا کوئی نقطہ اس کے ہاتھ لگا اور نہ ہی اس میںآگے بڑھ کر کچھ پوچھنے کی ہمت آسکی۔ سات سال اور گزر گے۔ امن اور آشیو کے سات طویل، یکساں اور بے علم سال۔ اب وہ دوستوں کی طرح رہتے تھے۔ ہنسی مذاق کرتے اور بہت بولتے۔ مگر شاگرد اس میں بھی ادب کی حد فاصل کا خیال رکھتا اور گرو کا ہر کام اسی لگن اور فرمانبرداری سے کرتاجیسا ہمیشہ سے کرتا چلا آیا تھا۔ لیکن آگہی کی طلب کا جو سنپولیا مدتوں سے اس کے خون میں گردش کررہا تھا، اب رات کے اندھیرے کونوں، کھدروں سے شوکتا ہوا اژدہا بن کر اس کے سامنے آکھڑا ہوتا اور بےکار گزرتی زندگی کا خراج مانگنے کو اکساتا۔ شاگرد اپنی فرمابرداری اور خواہش کے دو ٹکڑوں میں منقسم ہونےہی کو تھا کہ ایک دن گُرو نے اسے طلب کیا اور طویل، با ادب خدمتگزاری کے عوض ایک خواہش کرنے کا حکم دیا۔ مطیع شاگرد گھٹنوں کے بل جھکا اور اپنے استاد سے آخری سچ کی آگہی کا طلبگار ہوا۔ مہربان استاد نے بے چینی سے پہلو بدلا اور اسے دنیا کے سب سے بڑے خزانے کے بدلے اپنی خواہش بدلنے کو کہا مگر چیلا چپ رہا۔ گُرو نے اسے زمین کا طاقتور ترین بادشاہ بننے کی پیشکش کی لیکن اس کے منہ سے ہاں نہ نکلی۔ استاد نے اسے عظیم شخص کی زندگی اور زمانوں تک گونجنتے نام کی خوش بختی عطا کرنا چاہی مگر شاگرد نے جواب نہ دیا اورہٹدھرمی سے استاد کے سامنے جما رہا۔
گُرو بہت دکھی ہوااور کہنے لگا، بالک تو مجھے اپنی اولاد جیسا عزیز ہے۔ اور چاہے تو کتنی ہی ضد کیوں نہ کر لے میں تیرے ساتھ یہ ظلم نہیں کر سکتا۔
طلب کااژدہا سالوں تک چیلے کو وہیں گاڑے بیٹھا رہا۔ پہلے اس کے کپڑے مٹی ہوئے اور پھر دیمک زمین سے ٹکے گھٹنوں سے چڑھیخ سر تک آ پہنچی۔ دیمک کی بامبیوں پر چھوٹے چھوٹے پودے اگتے مرتے رہتے۔ بارشوں نے اس پر کائی جمائی بہاروں میں گھونگوں نے اسے رہنے کا ٹھکانہ سمجھا مگر وہ اپنی جگہ سے نہ ہلا۔
اسے اسی حالت میں سات برس بیت گےت تو گُرو کو اس پر رحم آگیا۔ تب اس نے شاگرد پر جمی دیمک اور جالوں کی تہیں اتاریں اوراس کے کان میں آخری سچ تک پہنچنے کا راستہ اور نقشہ پھونکا اوراسے پہلی اور آخری نصیحت کی "اپنے ارادے سے باز آجا، اب بھی کچھ نہیں بگڑا”۔
چیلا کڑکڑاتے گھٹنوں کے ساتھ اٹھا اور کچھ بولے بغیر زادراہ سمیٹ، سفر پر روانا ہو گیا۔ منزلوں پر منزلیں مارتا وہ زمیں کے آخری سرے پر جا پہنچا جہاں گرو کے مطابق زمیں کو حد نظر تک پھاڑنے والی قعر اور اس پر بنا وہ عظیم پل تھا جو دنیا کو آخری سچ سے جوڑے ہوئے تھا۔ ایسا وحشی اندھیرا اور ایسی ہولناک گہرائی ۔ یہ جگہ یقیناً کوئی بڑا راز چھپائے ہوئے تھی۔ اس نے خوف سے لرزتے ہوئے بھی خوش ہونے کی جسارت کی اور پل پار کرنے لگا۔ پل پر چلتے زمانے گزرے مگر آخر کار وہ پار پہنچ ہی گیا۔
پل کے دوسری طرف آسمان تک پہنچتی اندھیری چٹانوں کی ایک بے رخنہ دیوار اس کی منتظر تھی۔اس نے ادھر اُدھردیکھا، کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ بہت سر مارنے پر بیی کچھ سجھائی نہ دیا اور کوئی راہ نہ ملی تو اس نے مایوس ہو کر واپس پلٹنا چاہا لیکن تب تک پل اٹھا یا جا چکا تھا۔

One Response

Leave a Reply

%d bloggers like this: