وہ جنگل کا سب سے پرانا، سب سے طاقتور اور آخری درخت تھا۔۔۔ ریت کے بڑھ آنے ، جنگل کے ختم ہونے، موسموں کی شدتوں اور پانی کے کم ہونے کے عذاب سے لڑتا آخری درخت۔ وہ ہر رات اس عزم کے ساتھ سوتا کہ میں ہار نہیں مانوں گااور ہر صبح لق و دق صحرا اور ریت میں ڈوبتی اُبھرتی ، اپنے دیرینہ دوستوں کی لاشوں کا سامنا مضبوط دل سے کرتا۔”نہیں میں اس بے رحم ریت سے ہار نہیں مانوں گا” وہ ان عزیزلاشوں سے کِیا گیاعہد دہراتا۔اس کا زیادہ وقت یہی سوچتے گزر جاتا تھا کہ کبھی جنگل ہرا تھا اور تمام وقت پرندوں اور جانوروں کی آوازوں سے گونجتا رہتا تھا۔ اُس کی اپنی شاخوں میں اب تک لا تعداد گھونسلے موجود تھےجن میں سے زیادہ تر کو تو اُجڑے بھی مدتیں بیت گئی تھیں مگر چند اسی جیسے ضدی پرندے آخری سانس تک ساتھ نبھانے پر مصر تھےاور وہ خود بھی پُر امید تھا کہ بارشیں برسیں گی، ریت بھیگ کر سر اٹھانے کے لائق نہیں رہے گی، ایک بار پھر سبزہ سر اٹھائے گا اور تا حدِنظر ہریاول ہو گی۔ جس میں پرندے چہچہائیں گے ، ہرن چوکڑیاں بھریں گےاور وہ اپنے اجداد کی طرح بھرے پُرے جنگل کو اگلی نسل کے سپُرد کر کےاطمینان اور عزت کے ساتھ آنکھیں موند لے گا تب تک یہ ریت کےعذاب کا یہ دور ماضی کا قصہ بن چکا ہو گا۔
اچانک کچھ محسوس کر کے وہ دھک سے رہ گیا، اُس کی جڑوں کا آخری سرا بھی پانی کو چھو نہیں پا رہا تھا۔ اُس کا مضبوط دل اِس ناموجود پانی میں ڈوبنے لگااور وہ تمام دن سوچ میں گم رہا
مگر پرندوں اور درخت کی اس امید کے نیچے وہ سیاہ خوف ہلکورے لیتا تھا جس سے وہ نظر چرائے بیٹھے تھے۔ آخری تباہی کا خوف۔۔۔ جس کے بارے میں کوئی بات نہ کرتا۔ صرف ماضی کے قصے تھے جو انھیں زندہ رکھے ہوئے تھے۔
پھر بیم و رجا کی کی ایک عام سی صبح جب پرندوں کی آوازوں سے درخت کی آنکھ کھلی اور وہ مسکراتا ہوا جاگا اور اپنے ارد گرد نگاہ کی تو دیکھا کہ ریت اُس سے کچھ فاصلے پر آٹھہری ہے، اتنی قریب کہ درخت کی شاخیں اس پر سایہ کرتی تھیں۔اچانک کچھ محسوس کر کے وہ دھک سے رہ گیا، اُس کی جڑوں کا آخری سرا بھی پانی کوچھو نہیں پا رہا تھا۔ اُس کا مضبوط دل اِس ناموجود پانی میں ڈوبنے لگااور وہ تمام دن سوچ میں گم رہا۔
شام ہوئی تو اس کی پناہ میں رہنے والے تمام پرندےاس کی طرف لوٹے اور چیخ چیخ کر ایک دوسرےکو دن کا احوال سنانے لگے۔ تب ہی انھیں احساس ہوا کہ آج درخت بہت خاموش ہے۔وہ بھی ایک ایک کر کے چُپ ہوتے گئے مگر درخت کو بلانے کا حوصلہ کسی کو نہ ہوا۔ جنگل کو ختم ہوئے تو مدتیں بیت گئی تھیں مگر اتنا ہولناک سناٹا اس جگہ نے پہلی بار دیکھا تھا۔جب پرندوں کی چپ لمبی ہونے لگی تو درخت نے انھیں پکارا۔وہ سب کان لگا کر سننے کو تیار ہوگئے مگر کوئی کچھ نہ بولا۔ انھیں لگا کہ کسی نئی مرگ کی خبر ان کی منتظر ہے۔ موت جو زندگی جتنی قدیم ہے مگرکوئی ذی روح اس کا عادی نہیں ہو پایا۔ سو زندگی ایک بار پھر اپنے منطقی انجام سے خوفزدہ تھی۔
درخت بولا ،” میرے دوستو!میرے دکھ سکھ کے ساتھیو! ہمارا ساتھ یہیں تک تھا۔ میری شاخیں اب تمہارے آشیانوں کا بار نہیں اٹھا پائیں گی۔ میں جلد ہی بے برگ وبار ہو جاؤں گا۔ وقت آگیا ہے کہ تم اڑ کر کسی بہتر ٹھکانے کے ہو جاؤ۔ اگر میں چل سکتا تو تمھارے لیے اپنی جگہ چھوڑ دیتا۔ مٹی کی محبت تمھارے چہچہوں پر قربان کرنے کی ہمت مجھ میں ہے لیکن ایسا کر سکنا میرے بس میں نہیں مگر تم جا سکتے ہو۔ لیکن جہاں بھی جاؤ ایک بات یاد رکھنا،” میں مارا گیا ہوں ہرایا نہیں جا سکا”۔ پرندوں کی چہچہاہٹ ان کے گلوں میں سوکھ گئی۔
اگلی صبح جب درخت کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ سب پرندے اپنی جگہ بے حس و حرکت بیٹھے تھے۔ محبت کا ناگ ان کے ذرا ذرا سے سانس پی گیا تھا۔ درخت بغیر کسی آندھی، طوفان کے ،جڑوں سمیت اکھڑا اور زمین پہ آ رہا۔

3 Responses

  1. Khizar Hayat

    موت جو زندگی جتنی قدیم ہے مگرکوئی ذی روح اس کا عادی نہیں ہو پایا۔ سو زندگی ایک بار پھر اپنے منطقی انجام سے خوفزدہ تھی۔
    بہت خوب۔۔۔

    جواب دیں
  2. Jack

    بانو بہنا، جیتی رہیں اور اسی طرح لکھتی رہیں، فطرت کیلئے لکھنا بڑا جہاد ہے اور آپ اس جہاد کو کئی جوانمردوں سے اچھا کر رہی ہیں۔۔۔

    جواب دیں
  3. Talking Faces

    This short story reminds me "The Old Man and the sea”… A man can be destroyed but not defeated”…. Anyhow good one..:)

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: