آپ کبھی اپنے شہر کی سبزی منڈی گئے ہیں؟ یا کبھی اتوار بازار کا رخ کیا ہے؟ اگر نہیں گئے تو ایک بار ضرور جایئے گا۔ وہاں آ پ کو مختلف قسم کے تجربات ہوں گے ان پر غور کیجیے گا۔ وہاں ہر شخص آپ کو اپنا راگ الاپتا ملے گا، وہاں ہر دکاندار متوقع گاہکوں کو راغب کرنے کے لیے نئی ہی راگنی چھیڑے بیٹھا ہو گا، یہ شوروشغب اس قدر سمع خراش ہوگا کہ آپ خود سے بھی بیزار ہوجائیں گے۔ منڈی میں گھستے ہی ہر دکاندار آپ کو اپنی جانب کھینچے گا۔ آپ کو ہر دکاندار کی آواز دوسرے دکاندار سے اونچی سنائی دے گی اور ہر کوئی اپنی چیز کو اچھا اور کم دام ثابت کرتا نظر آئےگا۔
خبررساں ادارے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جس کا سودا وہ کرتے ہیں اس چیز کو آلو نہیں خبر کہتے ہیں۔ شائد یہی فرق ہمارے میڈیا کو سمجھنے کی ضرورت ہے مگر آج اخبار کھولیں یا ٹی وی چینل، آپ کو ہر جگہ مچھلی بازار یا سبزی منڈی جیسے گراں فروش ہی دکھائی دیں گے۔
آپ ایک دکان پر سبزی دیکھنے کھڑے ہوں گے اور اس کے دام پوچھیں گے تو اگلا دکاندار آپ کو اس سے پہلے اور اس سے بھی کم نرخ کی پیشکش کرے گا۔ آپ کسی ایک دکان پر کوئی برانڈ دیکھنے رکیں گے تو اگلا اپنی چیز کو پہلے سے بھی زیادہ چمکیلی بھڑکیلی پیکنگ میں آپ کو پکڑا دےگا، یہ سب کچھ اس پھرتی اور مشاقی سے ہو گا کہ آپ اس پیکنگ کو کھول ہی نہیں پائیں گے اور سوچے سمجھے بغیر خریدنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس طرح ہر دکاندار ایک دوسرے سے یوں بازی لیتا دکھائی دے گا گویا محشر بپا ہے۔ اس مقابلے بازی میں دکاندار آپس میں لڑتے بھی دکھائی دیں گے۔
مجھے اپنے ملک کے نشریاتی ادارے بھی ان دکانداروں کی طرح ہی لگتے ہیں جو ریٹنگ اور پہلے نمبر پر آنے کی دوڑ میں ہر وہ کام کرجانے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں جس سے ان کے ناظرین میں اضافہ ہو۔ خبررساں ادارے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جس کا سودا وہ کرتے ہیں اس چیز کو آلو نہیں خبر کہتے ہیں۔ شائد یہی فرق ہمارے میڈیا کو سمجھنے کی ضرورت ہے مگر آج اخبار کھولیں یا ٹی وی چینل، آپ کو ہر جگہ مچھلی بازار یا سبزی منڈی جیسے گراں فروش ہی دکھائی دیں گے۔ آج کل جس قماش کی صحافت کوفروغ مل رہا ہے، اس کا ایک نمونہ آپ خودملاحظہ کر لیں:
مجھے اپنے ملک کے نشریاتی ادارے بھی ان دکانداروں کی طرح ہی لگتے ہیں جو ریٹنگ اور پہلے نمبر پر آنے کی دوڑ میں ہر وہ کام کرجانے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں جس سے ان کے ناظرین میں اضافہ ہو۔ خبررساں ادارے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جس کا سودا وہ کرتے ہیں اس چیز کو آلو نہیں خبر کہتے ہیں۔ شائد یہی فرق ہمارے میڈیا کو سمجھنے کی ضرورت ہے مگر آج اخبار کھولیں یا ٹی وی چینل، آپ کو ہر جگہ مچھلی بازار یا سبزی منڈی جیسے گراں فروش ہی دکھائی دیں گے۔ آج کل جس قماش کی صحافت کوفروغ مل رہا ہے، اس کا ایک نمونہ آپ خودملاحظہ کر لیں:
“ماضی کی کوتاہیوں پر اداکاراہ میرا کی توبہ، صبح پاکستان میں رو پڑیں۔ میری وجہ سے اہل وطن کے جذبات کو ٹھیس پہنچی، صدق دل سے معافی مانگتی ہوں۔ عامر لیاقت کی استدعا پر اداکارہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں، حاضرین کا زبردست خیر مقدم۔”
یہ خبر جنگ کے فروری 2015 کے اوائل کے شماروں میں سے ایک شمارے کے پہلے صفحے پر ترجیحاً لگائی گئی تھی۔ عامر لیاقت صاحب اُن دنوں جیو گروپ کے صدر تھے۔ مو صوف نے اداکارہ سے اپنے پروگرام میں توبہ کرائی اور یہ خبر چار سو پھیل گئی۔ یہی نہیں موصوف جو رمضان میں رنگ جماتے ہیں اس کی نشرواشاعت میں ان کا اِدارہ ان کی ایک ایک حرکت کو ایسے شائع کرتا ہے جیسے عامر لیاقت کا پروگرام خبریت کے اعتبار سے پاکستان کا اہم ترین معاملہ ہے۔ دیگر اخبارات اور چینلوں کا چلن بھی کچھ بہت مختلف نہیں۔ صحافت کو ان لوگوں نے اپنے گھر کی باندی بنا رکھا ہے۔
یہی نہیں بلکہ بیشتر میڈیا مالکان اشتہارات دینے والوں کے ہاتھوں اپنی آزادی گروی رکھے ہوئے ہیں۔ اخبارات میں اشتہارات دینے والے نہ صرف اپنی پسند کی خبریں لگواتے ہیں بلکہ اپنے مفادات کو زد پہنچانے والی خبروں کو دباو ڈال کر رکواتے بھی ہیں۔ ان معاملات میں ایک ایڈیٹر صحافتی اقدار کے دفاع میں چوں بھی نہیں کر سکتا۔ مدیران اور صحافی اس مجبوری سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ خبروں کی مسالہ دار نوعیت ہی دراصل اشتہارات ملنے کی ضمانت ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اشتہارات ملیں گے تو تنخواہیں بھی ملیں گی اور یوں پھر صحافت زرد ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ زرد صحافت جیسا سنگین مسئلہ بھی صحافیوں اور صحافتی اداروں کی ساکھ کو دیمک کی طرح نقصان پہنچا رہا ہے۔
یہی نہیں بلکہ بیشتر میڈیا مالکان اشتہارات دینے والوں کے ہاتھوں اپنی آزادی گروی رکھے ہوئے ہیں۔ اخبارات میں اشتہارات دینے والے نہ صرف اپنی پسند کی خبریں لگواتے ہیں بلکہ اپنے مفادات کو زد پہنچانے والی خبروں کو دباو ڈال کر رکواتے بھی ہیں۔ ان معاملات میں ایک ایڈیٹر صحافتی اقدار کے دفاع میں چوں بھی نہیں کر سکتا۔ مدیران اور صحافی اس مجبوری سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ خبروں کی مسالہ دار نوعیت ہی دراصل اشتہارات ملنے کی ضمانت ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اشتہارات ملیں گے تو تنخواہیں بھی ملیں گی اور یوں پھر صحافت زرد ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ زرد صحافت جیسا سنگین مسئلہ بھی صحافیوں اور صحافتی اداروں کی ساکھ کو دیمک کی طرح نقصان پہنچا رہا ہے۔
بیشتر میڈیا مالکان اشتہارات دینے والوں کے ہاتھوں اپنی آزادی گروی رکھے ہوئے ہیں۔ اخبارات میں اشتہارات دینے والے نہ صرف اپنی پسند کی خبریں لگواتے ہیں بلکہ اپنے مفادات کو زد پہنچانے والی خبروں کو دباو ڈال کر رکواتے بھی ہیں۔
آج کے اخبارات کے پہلے صفحات پر غور کیجیے تو آپ کو اس کے دو حصے نظر آئیں گے۔ اوپر والے آدھے صفحے پر آپ کو طرح طرح کی مسالے دار خبریں اور بقیہ آدھے صفحے پر اشتہارات نظر آئیں گے۔ یہاں خبروں اور اشتہارات کے مابین تعلق کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یہ تعلق بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ مصنوعات ساز اداروں اور دکانداروں کے درمیان ہوتا ہے۔ خبر بھی آلو، پیاز، سرف اور صابن کی طرح جتنی چمکا کر پیش کی جائے اتنی بیش قیمت سمجھی جاتی ہے اور اسی اخبار اور چینل کو اشتہارات زیادہ ملتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ مسالہ خبروں میں بگھار کر پیش کرے۔ جس کے ہاں مرچ مسالہ اچھا ہو اسی کا ذائقہ لوگ پسند کرتے ہیں مگر یہاں پسند صرف ناظرین کی نہیں بلکہ اشتہاردینے والوں کی ترجیحات بھی اہم ہیں۔ یہ کاروباری انداز ادارے کی ادارتی پالیسی پر بھی اثر اندازہوتا ہے اور پھر آپ ایسی صحافت کو ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں جو آدھے صفحے کے اشتہارات کے عوض طے پانے والے سمجھوتوں اور معاہدوں کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
میں اشتہارات کے قطعاً خلاف نہیں اور نہ میں تجارتی بنیادوں پر صحافتی اداروں کو چلانے کا مخالف ہوں، بلکہ اشتہارات کی آڑ میں میڈیا کی اخلاقیات، قوانین اور صحافتی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر کے خبر کو آلو پیاز کے بھاوبیچ ڈالنے پر تلملا رہا ہوں۔ایک خبر کو چٹخارا خبر بنا کر پیش کرنے کی آڑ میں کئی پیشہ ورانہ غلطیاں کی جاتی ہیں۔ اس دوران یہ فرق بھی روا نہیں رکھا جاتا کہ کس بیوپار کے کیا اصول ہیں اور کس پیشے کے کیا تقاضے ہیں۔ پرچون فروشی اور خبر رسانی میں فرق کو سمجھ کر ہمیں اپنے معاشرے میں میڈیا سمیت ہر ادارے کو ملکی اور معاشرتی سطح پر محض کاروبار نہیں بلکہ ذمہ دار ی سمجھنا ہے۔ انفرادی ذمہ داری ہی اجتماعی اخلاقیات کی بنیاد ہے۔ میڈیا کیونکہ معاشرے کا آئینہ دار ہوتا ہے اس لیے اس وقت سب سے بڑی ذمہ داری ہمارے میڈیا کی ہے کہ خود کو ملک کا ایک ذمہ دار ادارہ بنائے۔ کاروبار بھی تبھی بڑھے گا جب معیار بہتر ہوگا، صحافتی اداروں کو کاروباری انداز میں چلانے کے لیے بھی معیار بہتر کر کے ذمہ دار صحافت کا مظاہرہ کرنا لازمی ہے۔