زیادہ چاٹو یا کم چاٹو
جب بھوک لگے تو بم چاٹو
زیادہ پہنو یا کم پہنو
کپڑوں کی جگہ بھی بم پہنو
زیادہ ہو یا کم بانٹتے ہو
جب بیٹھتے ہو غم بانٹتے ہو
میاں یوم ولادت ہے بم کا
آج اسی خوشی میں بم بانٹو
یہ کس نے کہا اسے بم سمجھو
اسے زخموں کا مرہم سمجھو
یہ ناشکروں کی عادت ہے
جو پاس ہو اس کو کم سمجھو
اب اس کی حفاظت کرنی ہے
اس بم کو اپنا بم سمجھو
اور یوں بھی پاگل دیوانو
اے ناشکرو اے نادانو
جس قوم کے پاس ایٹم بم ہے
اس قوم کو آخر کیا غم ہے
جب بھوک لگے تو بم چاٹو
زیادہ پہنو یا کم پہنو
کپڑوں کی جگہ بھی بم پہنو
زیادہ ہو یا کم بانٹتے ہو
جب بیٹھتے ہو غم بانٹتے ہو
میاں یوم ولادت ہے بم کا
آج اسی خوشی میں بم بانٹو
یہ کس نے کہا اسے بم سمجھو
اسے زخموں کا مرہم سمجھو
یہ ناشکروں کی عادت ہے
جو پاس ہو اس کو کم سمجھو
اب اس کی حفاظت کرنی ہے
اس بم کو اپنا بم سمجھو
اور یوں بھی پاگل دیوانو
اے ناشکرو اے نادانو
جس قوم کے پاس ایٹم بم ہے
اس قوم کو آخر کیا غم ہے
One Response
Uff the sarcasm that dripped from the last two lines was thicker than coagulated blood. Thanks for sharing 🙂